اگر کسی مضمون کو فنونِ لطیفہ اور سائنس کا سنگم کہا جاسکتا ہے تو وہ بلاشبہ فنِتعمیر (آرکی ٹیکچر) ہے۔
ایک عمار (آرکیٹیکٹ) نہ صرف یہ کہ ایک اچھے جمالیاتی ذوق کا مالک ہوتا ہے بلکہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید ترین تقاضوں سے بھی واقف ہوتا ہے۔ وہ افراد کے رہنے اور بسنے کے لیے مکانات اور فلیٹ، طالب علموں کے لیے اسکول، کالج اور جامعات صنعت کاروں کے لیے فیکٹریاں، تاجروں کے لیے شاپنگ کمپلیکس اور بازار، کاروبارِ حکومت کے لیے دفاتر اور مذہبی امور کی انجام دہی کے لیے مساجد اور گرجا گھر ڈیزائن کرتا ہے۔ وہ فنِ تعمیر اور فنونِ لطیفہ کی تاریخ کی آگہی اور بلڈنگ ٹیکنالوجی کے جدید علم کی مدد سے اپنی ڈیزائننگ کو اس طرح پایہ ء تکمیل تک پہنچاتا ہے کہ عمارت کی تعمیر کا بنیادی مقصد پورا ہوجائے، عمارت پائیدار اور مستحکم بنیادوں پر استوار ہو اور عمارت استعمال کرنے والوں کے جمالیاتی ذوق کی تسکین بھی ہوجائے۔
اب سے کوئی دو ہزار برس پہلے قدیم روم کے ایک مشہور عماروٹر وویس نے ایک عمار کے تین بنیادی ہدف، عمارت کا درست استعمال، مضبوطی اور خوب صورتی کو قرار دیا تھا۔ آج بھی ایک عمار کا بنیادی ہدف یہی تین باتیں ہوتی ہیں۔
چوں کہ عمار کسی عمارت کے تصوّر کا خالق ہوتا ہے اس لیے اس کی موجودگی عمارت کی تعمیر کے ہر مرحلے پر ضروری ہوتی ہے۔ عمار کا پیشہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے انجینئرنگ کے دوسرے پیشوں سے مختلف ہے۔ ایک سول انجینئر کا کام دیے ہوئے نقشے کے مطابق عمارت تعمیر کرنا ہے۔ اسی طرح الیکٹریکل انجینئر حسبِ ضرورت بجلی کے کسی نظام کو مکمل کر دے گا یا اس کی خرابی دور کرے گا ، یا کسی بجلی گھر میں مشینوں اور آلات کی نگرانی اور بجلی کی ترسیل کے نظام کی دیکھ بھال کرے گا لیکن ایک عمار نہ صرف ایک عمارت کے خاکے کو سوچتا ہے بلکہ اپنے تصور کو کاغذ پر منتقل کرتا ہے اور عملی طور پر ایک ٹھوس عمارت کی شکل دیتا ہے۔ بعض اوقات اس کی تزئین و آرائش بھی اپنے تصور کے مطابق کراتا ہے۔ اس طرح یہ پیشہ ان نوجوانوں کے لیے موزوں ہے جو جمالیاتی ذوق کے ساتھ ریاضی اور انجینئرنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ایسے پیشے اپنانا چاہتے ہیں جس میں ان کے لیے چیلنج ہو۔
کام کی نوعیت
کسی عمارت کی ڈیزائننگ میں جمالیاتی ذوق (ایسی چیز تیار کرنا جو جاذبِ نظر اور دل کش ہو) اور سائنسی مہارت (ایسی چیز تیار کرنا جو تکنیکی طور پر قابلِ عمل ہو) کی ضرورت ہوتی ہے عمار کو اپنے موء کل سے صرف زبانی ہدایات ملتی ہیں کہ اسے کس قسم کی عمارت درکار ہے اور موء کل کی ضروریات کیا ہیں؟ ان ہدایات کی روشنی میں عمار اس جگہ کا جائزہ لیتا ہے جہاں وہ عمارت تعمیر ہوگی اس کے بعد وہ اس عمارت کا ایسا خاکہ سوچتا ہے، جو استعمال میں آرام دہ ہو، اپنے اردگرد کے ماحول سے مطابقت رکھتی ہو، اور اس عمارت میں بسنے یا کام کرنے والے ہر شخص کی ضروریات پوری کرسکتی ہو، اس مرحلے پر بہت سا تحقیقی کام کرنا ہوتا ہے جس میں متعلقہ لوگوں کے انٹرویو اور تعمیر کی جگہ کے ماحول کے بارے میں مختلف معلومات حاصل کرنا شامل ہے۔
فرض کیجیے ایک عمار کو کسی اسکول کی عمارت ڈیزائن کرنے کا کام تفویض کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے وہ اسکول کی انتظامیہ سے ایک میٹنگ کرے گا اور ان سے اسکول کے طلبہ کی تعداد، کلاسوں کی تعداد اور سائز، خصوصی کمروں(مثلاً کامن روم، لائبریری، لیبارٹری، ڈسپنسری وغیرہ) کی تعداد اور سائز اور آڈیٹوریم وغیرہ کے بارے میں استفسار کرے گا، اور تمام مطلوبہ معلومات نوٹ کرے گا۔
پھر وہ مجوّزہ اسکول کی زمین اور محل وقوع کا جائزہ لے گا۔ وہ دیکھے گا کہ اس علاقے میں رہنے والوں کا طرزِ رہائش کیسا ہے۔ اطراف میں موجود دوسرے اسکولوں کا معیار اور طرزِ تعمیر کیسا ہے اگر آس پاس کچھ اور عمارتیں بھی موجود ہیں تو ان کی نوعیت کیا ہے اور ان کا طرزِ تعمیر کیسا ہے۔ اور اس ماحول میں کس معیار اور کس ڈیزائن کا اسکول بنایا جانا ممکن ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اسکول کی انتظامیہ سے یہ بھی معلوم کرے گا کہ وہ عمارت کی تعمیر پر کتنا روپیہ خرچ کرسکتی ہے۔
اب وہ ان تمام اعداد و شمار اور اطلاعات کو ایک رپورٹ کی شکل دے گا اور اس کی روشنی میں عمارت کی ڈیزائننگ کا آغاز کرے گا۔ ابتدا میں وہ رف اسکیچز تیار کرے گا جن میں عمارت کا پلان، سیکشن اور ایلیویشن کے علاوہ ایک پرسپیکٹو ویو اور ایک ماڈل شامل ہوگا جن کی مدد سے اسکول کی انتظامیہ اور اسکول کی تعمیر میں حصہ لینے والے دوسرے افراد کو عمارت کی اندرونی و بیرونی تفصیلات جاننے میں مدد ملے گی۔ وہ اس ڈیزائننگ میں اسکول کی ڈیزائننگ کے عالمی معیارات اور اپنے شہر کی بلدیہ یا ترقیاتی ادارے کے معیارات بھی پیشِ نظر رکھے گا۔
اسکول کی انتظامیہ کی منظوری کے بعد عمار، عمارت کے فائنل پلان بنانے کا آغاز کرے گا۔ جس میں الیکٹریکل، سول اور میکینیکل ضروریات کے پیشِ نظر ورکنگ ڈرائنگز بھی بنائی جائیں گی۔ اس کے علاوہ ایک معاہدہ بھی تیار کیا جائے گا جس میں عمارت کی تعمیر اور عمار کی فیس کی ادائیگی کا طریقہء کار بھی طے کیا جائے گا۔
عمارت کی فائنل ڈرائنگز کی تیاری اور شہر کے ترقیاتی ادارے کی منظوری کے بعد ایک ٹھیکے دار، عمارت کی تعمیر کا آغاز کرے گااور عمار مختلف مراحل میں عمارت کی تعمیر کا جائزہ لے کر اس کے بلوں کی ادائیگی کی منظوری دے گا۔ عمارت کی تکمیل کے بعد عمار، عمارت کا حتمی معائنہ کرے گا اور مطمئن ہونے کے بعد عمارت اس کی انتظامیہ کے حوالے کر دے گا۔
ماحولِ کار
عمار کا زیادہ تر کام دفتر کے اندر کا ہوتا ہے۔۔۔ یہاں وہ موء کلوں سے ملاقات کرتا ہے ، ان سے مختلف ڈیزائنوں پر گفتگو کرتا ہے اور خاکے بناتا ہے۔ تاہم اس کے وقت کا کچھ حصہ بیرونی سرگرمیوں میں بھی صرف ہوتا ہے جن میں مجوّزہ تعمیراتی جگہ کے آس پاس رہنے والوں سے انٹرویو کرنا، سائٹ کا جائزہ لینا، کام شروع ہونے کے بعد کام کی نگرانی کرنا شامل ہے۔
بعض تعمیراتی منصوبے شہر سے باہر یا دوسرے شہروں سے متعلق بھی ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں عمار کو اپنے گھر سے دور رہنا ہوگا، بعض اوقات عمار کو اچھا خاصا وقت تعمیراتی جگہ پر گزارنا پڑتا ہے یہ جگہیں دور دراز اور غیر آبادبھی ہوسکتی ہیں۔ بڑے تعمیراتی اداروں کو سمندر پار ٹھیکے ملتے ہیں ایسی صورت میں ایک عمار کو بیرونِ ملک اجنبی ماحول میں رہنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔
ایک عمارکو اپنے کام کے سلسلے میں بعض اوقات قانونی معاملات اور دستاویزات سے بھی واسطہ پڑسکتا ہے۔
حالاتِ کار
یونی ورسٹی سے یا انجینئرنگ کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک عمار کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ دو سال کسی سرکاری یا نجی ادارے میں ملازمت کرے۔ اسی تجربے کے بعد وہ اپنا نجی کام پاکستان میں شروع کرسکتا ہے۔ آرکیٹکٹس کے دفاتر کا ماحول پرسکون اور صاف ستھرا ہوتا ہے اور پیشے میں ترقی کے امکانات روشن ہیں اور دو سالہ ملازمت کی تکمیل کے بعد بیش تر عمار اپنا دفتر قائم کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یا دوسرے عمار کے اشتراک سے کمپنی قائم کرتے ہیں۔
شخصی خصوصیات
عمار کے پیشے کو اپنانے کے خواہش مند نوجوانوں میں جمالیاتی ذوق کے علاوہ چند ذاتی خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔
1۔منطقی ذہن ہو۔
2۔ایسے سماجی اور مالیاتی عناصر میں دلچسپی لیتا ہوجو عمارت کی تعمیر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
3۔ذاتی زندگی میں نظم و ضبط کا عادی ہو۔
4۔انتظامی صلاحیت کا حامل ہو۔
5۔قانونی معاملات، دستاویزات کو سمجھ سکتا ہو۔
فنِ تعمیر کی تعلیم و تربیت
اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ایک عمار کے فرائض کیا کیا ہوتے ہیں۔ اگر آپ خود کو مستقبل کا ایک اچھا عمار بننے کا اہل سمجھتے ہیں تو آیئے ہم آپ کو بتائیں کہ آپ اپنا ہدف کس طرح حاصل کرسکتے ہیں۔
پاکستان کے چار اداروں میں فنِ تعمیر کے پانچ سالہ کورس کی تعلیم دی جاتی ہے۔ نصاب کی کامیاب تکمیل پر بیچلر آف آرکی ٹیکچر کی سند دی جاتی ہے۔ جن اداروں میں یہ تعلیم دی جاتی ہے وہ حسبِ ذیل ہیں
یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور
مہران یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، جام شورو
نیشنل کالج آف آرٹس۔ لاہور،
انڈس ویلی اسکول آف آرٹ، کرافٹس اینڈ آرکی ٹیکچر
داؤد کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی،کراچی
سندھ کالج آف آرٹ، ڈیزائن اینڈ آرکی ٹیکچر
ان اداروں میں داخلہ لینے کے لیے بنیادی قابلیت انٹر سائنس (پری انجینئرنگ گروپ) ہے۔ پہلے دو اداروں میں علی الترتیب پنجاب اور سندھ (دیہی) کے ڈومیسائل کی بنیاد پر داخلہ ملتا ہے جب کہ آخر الذکر اداروں میں پورے پاکستان اور آزاد کشمیر کے طلبہ و طالبات داخلہ لے سکتے ہیں۔ نیشنل کالج آف آرٹس ،لاہور میں داخلہ لینے کا طریقہ اس لحاظ سے ذرا مختلف ہے کہ یہ کالج داخلے کے خواہش مند امیدواروں کا ہر صوبے میں اس صوبے کے بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے توسط سے ایک امتحان منعقد کرواتا ہے جس میں انٹر سائنس (پری انجینئرنگ گروپ) کے فرسٹ اور سیکنڈ ڈویژن حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کا ریاضی، انگریزی اور مصوّری کا امتحان لیا جاتا ہے۔ اور پھر ایک زبانی انٹرویو کے ذریعے اہل امیدواروں کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔
یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ،لاہور اور داؤد کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی میں آرکی ٹیکچر کے علاوہ ٹاؤن پلاننگ کے شعبے بھی موجود ہیں۔ یہ ادارے چار سال کی تعلیم کی تکمیل پر بیچلر آف ٹاؤن پلاننگ کی ڈگریاں دیتے ہیں۔ ان شعبوں میں بھی داخلے کی شرائط وہی ہیں جو آرکی ٹیکچر کے شعبے کی ہیں۔
جو طالبات ریاضی اور انجینئرنگ کے مضامین میں دلچسپی رکھتی ہوں ان کے لیے آرکی ٹیکچر سے بہتر کوئی شعبہ نہیں کیوں کہ عام طور پر مشاہدہ کیا گیا ہے کہ طالبات کا ذوق جمال، طلبہ کی بہ نسبت خاصا بہتر ہوتا ہے جو آر کی ٹیکچر میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
ملازمت کے مواقع
فنِ تعمیر یا ٹاؤن پلاننگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نئے عمار اور ٹاؤن پلانرز ابتداً دو برس تک کسی سرکاری یا نجی ادارے میں ملازمت اختیار کرتے ہیں۔ اس کے بعد انھیں خود پریکٹس کرنے کی اجازت مل جاتی ہے اور وہ اپنا نجی دفتر بھی کھول سکتے ہیں۔
پاکستان میں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں نئے عمار اور ٹاؤن پلانرز، گریڈ سترہ پر فائز کیے جاتے ہیں۔ ان سرکاری اداروں میں کراچی، لاہور، حیدرآباد، اسلام آباد اور دیگر شہروں کی ڈیولپمنٹ اتھارٹیز، واپڈا، نیس پاک، پی پیک، ایئر پورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی، پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ اور بینکس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فنِ تعمیر کے تعلیمی اداروں میں نئے عمار اور ٹاؤن پلانرز بہ حیثیت لیکچرر بھی اپنے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔
ان اداروں میں یہ نئے عمار تقریباً تین ہزار روپے ماہوار تک تنخواہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ فرموں میں بھی نئے عماروں کو دو سے تین، ساڑھے تین ہزار روپے ماہوار تنخواہ مل جاتی ہے جو ان کی اہلیت کے مطابق طے کی جاتی ہے۔
موجودہ صورت حال
جون 1994ء کے اختتام تک پاکستان میں 1550 تسلیم شدہ (رجسٹرڈ) عمار اور 350منظور شدہ ٹاؤن پلانرز موجود تھے۔ غیر سند یافتہ (ان لسٹڈ) عماروں کی تعداد 120 اور ٹاؤن پلانرز کی تعداد 2 تھی۔ ہر سال ملک کی چار جامعات اور انجینئرنگ کالجوں سے اوسطاً 135 آرکیٹیکٹس اور ٹاؤن پلانرز فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ابتدا میں انھیں روزگار کے سلسلہ میں دشواری پیش آتی ہے کیوں کہ ان کے پاس صرف تعلیم ہوتی ہے، تجربہ نہیں ہوتا لیکن ایک دو برس کے اندر یا تو انھیں ملازمت مل جاتی ہے یا وہ اپنا کام شروع کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
سرکاری اداروں میں سند یافتہ عمار کو گریڈ ۷۱ کی ملازمت پیش کی جاتی ہے نجی اداروں میں اہلیت اور تجربے کی بنیاد پر تنخواہ مقرر کی جاتی ہے۔
رجسٹریشن
انجینئرنگ کالج یا یونیورسٹی سے آرکی ٹیکچر اور ٹاؤن پلاننگ میں کامیاب ہونے والے نوجوان عمار کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ عملی زندگی کا آغاز کرنے سے پہلے پاکستان کونسل آف آرکیٹیکٹس اینڈ ٹاؤن پلانرز (پی سی اے ٹی پی) سے اپنا رجسٹریشن کرائیں(کونسل کا پتا اس مضمون کے آخر میں دیا گیا ہے) رجسٹریشن فیس پانچ سو روپے ہے۔ رجسٹریشن کی تجدید ہر سال کرانی ضروری ہے۔ تجدید کے لیے پانچ سو روپے فیس مقررہے۔ کونسل ضروری کارروائی کے بعد عمار کو رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کر دیتی ہ
ے۔ اس سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر عمار پاکستان میں جہاں چاہے ملازمت بھی کرسکتا ہے اور ذاتی پریکٹس بھی کرسکتا ہے۔
غیر سندیافتہ عمار
ملک میں بعض ایسے عمار بھی کام کر رہے ہیں جن کے پاس فنِ تعمیر کی باقاعدہ سند نہیں ہے لیکن اپنے تجربے اور مہارت کی وجہ سے انھیں تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایسے عمار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نام کا پی سی اے ٹی پی میں اندراج کرائے ۔غیر سند یافتہ عمار کو ’’ان لسٹ آرکیٹیکٹ‘‘ کہا جاتا ہے اور کونسل میں اندراج کے بعد انھیں جو سرٹیفکیٹ جاری ہوتا ہے اس کی بنیاد پر صرف اس ضلعے/شہر میں ملازمت یا ذاتی پریکٹس کرسکتے ہیں جہاں اندراج کے وقت ان کی ملازمت/پریکٹس تھی۔
متعلقہ پیشے، ڈرافٹس مین
وہ البدر ٹیکنیکل ہائی اسکول شیر شاہ، نوبل ٹیکنیکل اسکول شاہ فیصل کالونی اور پاکستان انجینئرنگ اینڈ میٹریل ٹیسٹنگ سینٹر فیڈرل بی ایریا میں بھی اسی نوعیت کے کئی ایک ایک سالہ کورسز کروائے جاتے ہیں۔ خواتین کے لیے گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر بفر زون نارتھ کراچی میں ڈرافٹس مین کا کورس ہوتا ہے۔ بعض کورسز میں ڈرافٹنگ کے علاوہ ماڈل میکنگ، پراسپیکٹو میکنگ اور امونیا پرنٹس نکالنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے، جن کی بڑی مانگ ہوتی ہے۔ ان کورسز میں آٹھویں جماعت اور میٹرک پاس طلبہ و طالبات داخلہ لے سکتے ہیں۔ بعض ادارے مثلاً اسکول آف ڈیکور، کراچی، درونِ خانہ آرائش (انٹریئر ڈیکوریشن) کے کورسز کرواتے ہیں۔
مزید معلومات و اطلاعات
فن تعمیر کے بارے میں حسبِ ذیل اداروں سے بالمشافہ یا بذریعہ خط و کتابت مزید معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
1۔فیکلٹی آف آر کی ٹیکچر اینڈ پلاننگ یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، جی ٹی روڈ، لاہور
2۔فیکلٹی آف آرکی ٹیکچر اینڈ پلاننگ داؤد کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، ایم اے جناح روڈ کراچی
3۔ ڈیپارٹمنٹ آف آرکی ٹیکچر، نیشنل کالج آف آرٹس شاہرہ قائد اعظم ، لاہور
4۔انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکی ٹیکچر پلاٹ نمبر 33 بلاک2 کلفٹن، کراچی
5۔سندھ کالج آف ڈیزائن آرٹ اینڈ آرکی ٹیکچر، سی۔ 14 بلاک آئی نارتھ ناظم آباد، کراچی
6۔ڈیپارٹمنٹ آف آرکی ٹیکچر۔ مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی۔ جام شورو
7۔پاکستان کونسل آف آرکیٹیکٹس اینڈ ٹاؤن پلانرز، کمرہ نمبر111، ای ون ، پہلی منزل، آر ایس ایم اسکوائر، شہید ملت روڈ کراچی،
8۔انسٹی ٹیوٹ آف آرکیٹیکٹس ، پاکستان۔ 4 گلبرگ5 لاہور
9۔گورنمنٹ پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ فار ویمن،سپرمارکیٹ لیاقت آباد ، کراچی