اخراجات ، وظائف اور سہولتیں
بیچلرز آف انجینئرنگ سال اول کی فیس تقریباً چار سو روپے ہے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے سال کی ٹیوشن فیس فی تعلیمی سال 200روپے ہے۔ دیگر فنڈز کے ضمن میں 65روپے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ ہاسٹل کے اخراجات 240 روپے سالانہ ہیں۔تمام انجینئرنگ یونی ورسٹیوں میں ڈیوٹی سوسائٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو طلبہ کی مالی امداد کے لیے غیر سودی قرضے دیتی ہیں۔ ان قرضوں کی شرائط اور درخواست فارم متعلقہ سیکریٹری سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ تمام ہی جامعات میں لینڈنگ لائبریاں، سیمینار لائبریریاں اور کتابوں کے بینک قائم ہیں۔ طلبہ ان کی رکنیت حاصل کرسکتے ہیں۔ لینڈنگلائبریری سے کتابیں ایک تعلیمی سال کے لیے جاری کی جاتی ہیں۔ یونی ورسٹیوں کی جانب سے طلبہ کی مالی امداد کی اسکیموں کے علاوہ حکومتِ پاکستان اور نیشنل بینک آف پاکستان کی جانب سے بھی غیر سودی قرضوں اور قرض حسنہ کی اسکیمیں جاری کی گئی ہیں، جن کا اعلان وقتاً فوقتاً اخبارات میں کیا جاتا رہتا ہے۔
ذاتی خصوصیات
انجینئرنگ کے پیشے میں ایسے نوجوان زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں جو عملی سوچ رکھتے ہوں اور تخلیقی صلاحیت کے حامل ہوں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ منطقی ذہن کے مالک ہوں اور ہر کام کرنے سے پہلے اس کا طریقہء کار واضح طور پر ترتیب دینے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
انجینئروں کو ایک منتظم کی حیثیت سے بھی کام کرنا ہوتا ہے اس لیے ان میں پسندیدہ عادات و خصائل ہونے چاہئیں۔ ٹیم کی صورت میں کام کرنے اور دوسروں سے خوش گوار طریقے سے کام لینے کی صلاحیت رکھنے والے زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں۔ کام کو منظم طریقے سے کرنے اور ریکارڈ کو احتیاط سے مرتب کرنے کی خاصیت، خود ان کے کام میں آسانی پیدا کرسکتی ہے۔
حالات کار اور ماحولِ کار
الیکٹریکل انجینئروں کو بجلی گھروں اور ان کے کنٹرول رومز میں بجلی کی پیداوار کے عمل میں نگرانی کرنی ہوتی ہے۔ پن بجلی گھروں میں ٹربائن اور جنریٹروں کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے، تھرمل پاور اسٹیشنوں میں بوائلروں اور جنریٹروں کے ذریعے بجلی پیدا ہوتی ہے جب کہ ڈیزل انجنوں سے بھی جنریٹروں کو چلایا جاتا ہے۔ بجلی گھر سے برقی قوت گرڈ اسٹیشنوں کو فراہم کی جاتی ہے جو بجلی کی ترسیل کے نظام کا بنیادی حصہ ہیں گرڈ اسٹیشن سے بجلی سب اسٹیشن کے ذریعے گھروں اور کارخانوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ بڑے صنعتی اور کاروباری اداروں میں مشینیں اور آلات بجلی کی قوت سے چلتے ہیں۔ بعض بڑے صنعتی/کاروباری اداروں میں جنریٹر نصب ہوتے ہیں جو برقی رو میں تعطل کی صورت میں چلائے جاتے ہیں تاکہ پیداواری عمل میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔پاکستان میں بجلی کی پیداوار اور ترسیل و تقسیم کا انتظام ابھی تک سرکاری شعبے میں ہے۔ کراچی میں کے ای ایس سی اور ملک کے دیگر حصوں میں واپڈا بجلی پیدا کرنے اور اس کی ترسیل و تقسیم کے ذمہ دار ہیں۔ اس اعتبار سے یہ دو بڑے ادارے ہیں، جہاں الیکٹریکل انجینئروں کی بڑی تعداد کام کرتی ہیں۔ چوںکہ بجلی کی پیداوار اور ترسیل و تقسیم کا عمل ایک مسلسل اور ہمہ وقتی کام ہے اس لیے انجینئروں کو شفٹوں میں کام کرنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات گھر سے دور بھی تقرری عمل میں آتی ہے۔ شہروں کے علاوہ آبادی سے دور دراز مقامات پر بھی کام کرنا ہوتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الیکڑیکل انجینئروں کے کام اور ملازمتوں کے مواقع میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ انسٹی ٹیوشن آف الیکٹریکل انجینئرز کے ایک سروے کے مطابق الیکٹریکل اور الیکٹرونکس انجینئروں کا ایک بڑا حصہ تحقیق، ترقی اور ڈیزائن کے شعبوںمیں خدمات انجام دے رہا ہے، 1970ءکے اعداد و شمار کے مطابق ترقی یافتہ ملکوں میں نجی شعبے کے 42 فیصد انجینئر ترقی اور ڈیزائن کے شعبوں میں کام کر رہے تھے۔ ان میں سے دو تہائی کے قریب منیجر اور منتظم تھے۔اور 4.4 فی صد تحقیق کے کاموں میں مصروف تھے۔ سرکاری شعبے میں 18.4 فی صد انجینئرترقی اور ڈیزائن کے شعبوں میں اور 5.5 فی صد تحقیق کے شعبوں میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ خالص تحقیقی کاموں میں مصروف انجینئروں کا تناسب بہت کم ہے۔ درحقیقت تحقیق اور ترقی کے مابین خط امتیاز کھینچنا ایک مشکل کام ہے۔ نئی ایجادات اور اشیا کی تشکیل کے تصورات پر مبنی نظری کام زیادہ تر سائنس دان کرتے ہیں۔ الیکٹریکل اور الیکٹرونک انجینئر ان تصورات کی بنیاد پر اشیا اور مادوں کی ساخت اور خصوصیات کا مطالعہ کرتے ہیں پھر ڈیزائن کے کام سے لے کر اشیا کی پیدوار تک ہر مرحلے میں انجینئروں ہی کا دخل ہوتا ہے۔ بعض اوقات انھیں دوسرے شعبوں کے انجینئروں مثلاً مکینیکل انجینئرز، سائنس دان، ماہرینِ طبیعیات و کیمیا کے ساتھ مل کر کام کر ہوتا ہے۔ الیکٹرونکس انجینئرنگ کا زیادہ تر کام نازک اور نفیس اشیا کی تشکیل اور پیداوار سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ الیکٹریکل انجینئر زیادہ تر بھاری بھرکم مشینوں مثلاً ٹرانسفارمروں، سوئچ گیئروں، جنریٹروں موٹروں اور بجلی کی ترسیل کے آلات وغیرہ پر کام کرتے ہیں۔ توانائی کے حصول کے نئے طریقوں مثلاً شمسی توانائی، ہوائی چکیوں اور سمندری لہروں سے بجلی پیدا کرنے کے لیے تحقیقی کام جاری ہے۔ اس تحقیق کا زیادہ زور موجودہ نظام کو پہلے سے بہتر بنانے اور اس مقصد کے لیے نئے آلات کی تشکیل پر ہے۔
پیداوار کے شعبوں میں الیکٹریکل انجینئر کسی بجلی گھر کے انتظام اور انصرام سے متعلق رہتے ہوئے منصوبہ بندی اور نظمیات سے متعلق فنی خرابیوں کو دور کرنے کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ وہ جنریٹروں اور سرکٹ بورڈوں کی پیداوار کے فنی شعبے کو کنٹرول کرتے ہیں اور ان کی حیثیت ہمیشہ ایک منیجر کی ہوتی ہے۔ مارکیٹنگ، سیلز اور بازار کاری وغیرہ کے شعبوں میں بھی الیکٹریکل انجینئروں کی کھپت کافی زیادہ ہے۔ برقی و برقیاتی صنعت کو ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو اس صنعت سے متعلق مناسب معلومات اور تجربے کے حامل ہوں اور برقی و برقیاتی مصنوعات فروخت کرسکتے ہوں۔ نجی شعبے میں 12.3فی صد انجینئر سیلز اور مارکیٹنگ کے شعبے سے متعلق ہےں۔