غالباً دنیا کا پہلا میکینیکل انجینئر وہ انسان تھا جس نے پہیہ ایجاد کیا تھا اور اس طرح قدرت کے بنائے ہوئے قوانین حرکت کو انسان کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کی ابتدا ہوئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میکینیکل انجینئرنگ کے مختلف شعبوں میں ترقی ہوتی رہی یہاں تک کہ سترہویں صدی عیسوی میں صنعتی انقلاب نے میکینیکل انجینئرنگ کو ترقی کی نئی جہتیں اور راہیں عطا کیں۔ توانائی کے نئے وسائل کی دریافت نے میکینیکل انجینئرنگ کو جدید ترین سائنس کا درجہ عطا کیا۔ دخانی انجن ایجاد ہوئے ۔ ٹرانسپورٹ گاڑیوں سے لے کر کارخانوں تک ہر جگہ بھاپ کے بوائلرز استعمال ہونے لگے۔ اس کے بعد پیچیدہ پیٹرول انجنوں کا دور شروع ہوا۔صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ میکینیکل انجینئرنگ کا سائنس کی دوسری شاخوں کے ساتھ میل اور تعلق بڑھتا گیا۔
جوں جوں صنعتی ترقی کا عمل آگے بڑھا ویسے ویسے میکینیکل انجینئروں کی تعلیم اور تربیت کے لیے جدید کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ پہلے صنعتی اداروں اور کارخانوں ہی میں تربیت کا نظام رائج تھا بعد میں علیحدہ ادارے بن گئے۔ جہاں نظری تعلیم کا اہتمام کیا جانے لگا اور اب تو ترقی یافتہ ملکوں میں فنی تعلیمی اداروں اور صنعتی اداروں کے مابین گہرا تعلق اور رابطہ رکھا جاتا ہے۔ صنعتی ادارے اپنے صنعتی مسائل یونی ورسٹیوں کو بھیجتے ہیں۔ اور یونی ورسٹیاں ان صنعتی مسائل سے متعلق قابلِ عمل منصوبے تیار کرتی ہیں۔ پروفیسر حضرات کی نگرانی میں طلبہ ان منصوبوں پر عمل درآمد کرتے ہیں۔
کام کی نوعیت
میکینیکل انجینئرنگ صناعی کی وہ شاخ ہے جو مشینوں اور توانائی کی پیداوار سے بحث کرتی ہے۔ یہ خاص طور پر قوانینِ حرکت اور قوت سے متعلق ہے۔ کسی بھی میکینکل انجینئر کے بنیادی طور پر چار وظائف ہوتے ہیں۔ اوّل ، میکینیکل سائنس یا میکانیات کی مبادیات کی سمجھ اور شعور حاصل کرنا جس میں حرکیات کا مضمون شامل ہے۔ حرکیات، قوتوں اور حرکت کے باہمی تعلق کا علم ہے۔ اس میں خود کار کنٹرول، ارتعاش یا وائبریشن، حرکیات (تھرموڈائنامکس) مائعات کا بہاﺅ، انتقال حرارت لبریکیشن اور مادوںکی خصوصیات شامل ہیں۔ دوم، میکانی انجینئرکو میکانیات میں تحقیق، ڈیزائن اور تشکیل کا علم حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس شعبے میں میکانیات کا صحیح اور واضح شعور حاصل ہونا بے حد ضروری ہے کیوںکہ یہ مضمون میکانیات کی موجودہ شکل اور ترقی اور آئندہ ضرورتوں سے بحث کرتا ہے۔ سوم، اشیا اور توانائی کی پیداوار کا علم حاصل کرنا اس میں منصوبہ بندی، عمل درآمد اور دیکھ بھال شامل ہے ۔