جینے کے ہنر
والدین اور اساتذہ کے کرنے کے کام
بچوں کے کیریر پلاننگ کے سلسلے میں والدین اور اساتذہ کے کرنے کے کام یہ ہیں
دلچسپیوں کا جائزہ لیجیے
بچوں میں کیریر کا رجحان بالکل ابتدائی دور ہی سے معلوم کیا جاسکتا ہے، ضروری نہیں ہے کہ میٹرک پاس کرنے کے بعد ہی معلوم ہو۔ ہمارے ہاں ماؤں کی بڑی عجیب تمنا ہوتی ہے کہ میرا بیٹا تو انجینئر بنے گا یا میرا بیٹا ڈاکٹربنے گا۔ حالاں کہ اس ملک میں ڈاکٹراورانجینئر تقریباً ہردو گھنٹے میں ایک کی اوسط سے بن رہے ہیں اور بے روزگاری کا شکار ہیں۔ اس کے باوجود والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے۔ پھر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ بچے میں اس بات کا رجحان ہے یا نہیں۔ اس میں والدین کا قصور نہیں ہے،اس لیے کہ ہمارے ہاں اس میدان میں کام ہوا ہی نہیں ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر اور اساتذہ کو چاہیے کہ اسکول میں اجتماعی پروگرام کے ذریعے بچوں سے اس موضوع پر گفتگو کریں اوران سوالات کے ذریعے معلومات حاصل کریں
کون سی چیزیں آپ کو خوشی دیتی ہیں ؟
آپ کے کورسز میں پسندیدہ اور ناپسندیدہ کون سے ہیں ؟ کیا آپ لوگوں کے ساتھ کام کرنا پسند کرتے ہیں ؟
آپ ہنگامی حالات میں کام کرناپسند کرتے ہیں یاپرسکون ماحول میں ؟
آپ کو مشغلوں اور شوق میں کیا چیزیں متاثر کرتی ہیں؟
ان سوالات کے جوابات بچے کے رجحانات کا اندازہ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں بچوں کے اساتذہ، اسکاؤٹ لیڈر، دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی مشورہ کریں اور اہل افراد سے رہنمائی حاصل کریں۔
رہنمائی کیجیے ، احکامات مت دیجیے
بچوں کے شوق تک رسائی حاصل کیجیے۔ بعض بچے کہتے ہیں کہ میں پائلٹ بنوں گا، میں فوجی بنوں گا، بعض اوقات گھر میں ڈاکٹروں کی طرح بہن بھائیوں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں، میکینک کی طرح سائیکلوں اور گاڑیوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ان کے رجحانات ہیں۔
ان رجحانات اورکیریر پر گفتگو کیجیے فوائد و نقصانات بتایئے اوررہنمائی کیجیے۔
تجربات کے لیے مواقع فراہم کیجیے
بچوں کے رجحانات معلوم کرنے کے لیے انھیں مختلف مقامات پر لے جایئے۔ کبھی ڈاکٹر کے پاس، کبھی کارخانے میں، کبھی عدالت میں، کبھی دفتر میں، کبھی میلے میں، ہر جگہ وہ بیسیوں قسم کے پیشوں کا جائزہ لے سکیں گے۔ ایک زمانہ تھا کہ اسکولوں کی طرف سے مختلف اداروں کے دورے ہوتے تھے تو بچوں کو دنیا دیکھنے کا موقع ملتا تھا، اب اسکول صنعتی ادارے بن گئے ہیں، اور ایسی سرگرمیاں بہت ہی کم ہو گئی ہیں۔ بچوں کو مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے ملک میں روزگار کے تربیتی ادارے بھی نہیں ہیں ورنہ اسکول کی چھٹیوں میں اس بات کا موقع مل جاتا کہ بچے ان اداروں کے توسّط سے دفاتر اور کارخانوں میں تربیت حاصل کرسکتے۔ تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اوررفاہی اداروں میں میٹرک کے بعد بچوں کو رفاہی کاموں میں لگا کر ان کا رجحان معلوم کیا جاسکتا ہے۔
تعطیلات میں جز وقتی کام(پارٹ ٹائم جاب)، کیریر کے سلسلے میں بچوں کے رجحانات کو سمجھنے کا اچھا موقع فراہم کرسکتے ہیں۔
سوچ میں مطابقت پیدا کیجیے
بچہ کہتا ہے کہ میں تو پائلٹ بنوں گا۔ ماں کہتی ہے ڈاکٹر بنے گا۔ دونوں کی سوچ الگ ہے، بچے کا ہدف جو کچھ ہے، وہ آپ پڑھ نہیں سکتے۔ ماں جو کچھ کہہ رہی ہے وہ جذبات میں کہہ رہی ہے۔ اسے بچے کے رجحانات اور قومی ضرورت کا احساس نہیں ہے۔ بچہ، ماں کو ناراض کرنا نہیں چاہتا اور کڑھتا رہتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ ایک تیسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے جو دونوں کے لیے مایوسی کا باعث بنتا ہے۔ ایسی صورت میں بچے اوروالدین کو ماہرین یا خاندان کے قابل اور پسندیدہ افراد سے ملنے کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں بھی مصالحت کی ضرورت ہے۔
کاروباری صلاحیتوں کا جائزہ لیجیے
بعض بچوں میں ابتدا ہی سے کاروباری رجحان ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو پابند کرنا نہیں چاہتے ، سختی میں زندگی گزار سکتے ہیں، معیار زندگی کے قائل نہیں ہیں، جوکھم لے سکتے ہیں، وہ بڑی آسانی کے ساتھ کاروبار میں جاسکتے ہیں۔بچوں میں اس رجحان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ انھیں مختلف جگہوں پرکام کرنے کا موقع دیں، کبھی کبھی محلے کی کسی دکان پرہی۔یہ دکان آ پ کے کسی دوست کی بھی ہوسکتی ہے، اسے کچھ دیر کام کرنے کا موقع دیں۔ آپ اس کے رجحان کا مطالعہ کرسکیں گے۔
بچیوں کے لیے راستے بند مت کیجیے
لڑکیوں کو پیشہ ورانہ تعلیم دلاتے وقت خاص سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ کتنے گھروں میں ڈاکٹر خواتین ہیں جو محض کھانا پکاتی ہیں اورقوم کے لاکھوں روپے جو ان کی تعلیم و تربیت پر صرف ہوئے ہیں، وہ ضائع ہورہے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب معاشرہ اتنا مجبور کرتا ہے تو پھر ڈاکٹر بننے کی کیا ضرورت تھی؟ درحقیقت اس سوچ اور فکر میں توازن کی ضرورت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بچیوں کو ایسے مضامین کی تعلیم دلوائیں کہ بچیاں نامساعد حالات میں بھی اپنی ذمے داریاں پوری کرسکیں۔ نرسنگ، تدریس، میڈیکل سائنس، اور کیریر پلاننگ ایسے شعبے ہیں جہاں خواتین زیادہ مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ملبوسات کی صنعت(گارمنٹس)، کھاناپکانے( کیٹرنگ)، سلائی(سیونگ)، آرٹس، کمپیوٹراور دیگر ڈیسک کیریرز میں خواتین زیادہ ترقی کرسکتی ہیں اور کاروبار قائم کرسکتی ہیں۔ خود اپنے گھروں میں سپلائی ، پیکنگ ، گارمنٹس اور سیل آرڈر کے کام شروع کرسکتی ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ کیریر ابتدا سے مرنے تک کے لیے نہیں ہے،بلکہ حالات کے تحت اس میں تبدیلی کرنا بھی مناسب اور ضروری ہوتا ہے۔ جو لوگ حالات کو سمجھ کر راستہ تبدیل کرلیتے ہیں انھیں آپ مفاد پرست نہ کہیں، یہ دور اندیش لوگ ہیں۔ محض انا کی خاطر اَڑے رہنا، اچھی بات نہیں ہے۔
کیریر کے مشیروں سے مددلیجیے
پاکستان میں کیریر کے مشیر (کونسلرز) بہت کم ہیں، لیکن امید ہے کہ مستقبل میں حالات بہتر ہوں گے۔ کیریر کے مشیروں کا کام مشاورت ہے، وہ فیصلے نہیں کرتے۔ وہ آپ سے آپ کی خواہش معلوم کریں گے، اس کے مطابق آپ کو منزل کے متعلق معلومات دیں گے اور راستے بتائیں گے۔ کیریر کے مشیر آپ کی اس طرح سے مدد کرتے ہیں :
خود شناسی : اپنی صلاحیتوں سے ناواقفیت کی بنا پر لوگ اپنے لیے غلط کیریر کا انتخاب کرتے ہیں اور ناکامی کا شکار ہوتے ہیں۔ بعض جگہ اچھی تنخواہ ہوتی ہے مگر صلاحیتیں اجاگر کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ یہ کام مشیروں کا ہے کہ وہ آپ کی رہنمائی کریں۔ اس سلسلے میں شخصی امتحان لیا جاتا ہے اور اس کے مطابق رہنمائی کی جاتی ہے۔ درست کیریر کے انتخاب کی کنجی خود آگاہی اورخود شناسی ہے۔ پاکستان میں اس کام کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ بڑے اداروں میں اس قسم کے ٹیسٹ کا اہتمام کسی نہ کسی صورت میں ہوجاتا ہے۔
معلومات : مشیروں کا کام یہ ہے کہ ملک میں موجود مواقع کا ریکارڈ رکھیں۔ پیشوں، کاروبار اور اس قسم کی دیگر معلومات کا ریکارڈ، رہنمائی کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔
ملازمت میں مدد : کیریر مشیر آپ کے بائیو ڈیٹا یا سی وی کو موثر اوربہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔ آپ کو ملازمت حاصل کرنے، انٹرویو دینے اور بات کرنے کے گُرسکھاتا ہے اوربعض اوقات متعلقہ ملازمت کی تربیت کا اہتمام بھی کرتا ہے۔
کیریر کے مشیر آپ کو بتائیں گے کہ آپ کی قابلیت اور دلچسپی میں توازن کہاں قائم ہوگا۔ ایک وکیل عموماً طلاق کے مقدمے لڑتا تھا اور اس سلسلے میں کافی مہارت حاصل کرلی مگر اس کی مشکلات کے دن بھی آگئے۔ مشیر نے مشورہ دیا کہ اس صلاحیت کو اب میاں بیوی میں مصالحت کے لیے استعمال کرو، اور وہ کامیاب ہوگیا۔
کیریر کے مشیر رجحانی ٹیسٹ کے ذریعے مدد کرتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ لازمی نہیں، البتہ مددگار ضرور ہوتے ہیں۔
مشیر آپ کومتوقع آجر (جہاں آپ ملازمت کرنا چاہتے ہیں) کے یہاں کامیابہونے کے لیے آپ کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ آجر یہ دیکھنا چاہے گا کہ آپ اس کی کمپنی کے لیے کس حد تک مادی فوائد حاصل کرسکیں گے، دوم یہ کہ ادارے کے دیگر افراد کے ساتھ بھائی چارے کی فضا قائم کرسکیں گے یا نہیں۔ انٹرویو لینے والے، یہ سوالات براہ راست نہیں پوچھتے، ان کے جوابات گفتگو کے دوران معلوم کرلیے جاتے ہیں۔ مشیر آپ کی رہنمائی کریں گے کہ آپ آج کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے سی وی بنائیں اور آجر کومتاثر کرنے کی کوشش کریں۔
مشیر آپ کو بتا سکتے ہیں کہ کس قسم کی ملازمتیں اور کاروبار آپ کے ذاتی مقاصد ، ضروریات اور خواہشات کی تکمیل کے لیے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
جب کام میں بے اطمینانی ہو تو اس وقت بھی مشیر آ پ کی مدد کرسکتے ہیں۔
مشیر آپ کو بتائیں گے کہ آپ کو کب او رکیوں ملازمت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور کون کون سی ملازمتیں آپ کے کیریر کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔
پاکستان میں کیریر پلاننگ اور اس کے مشیروں کی تیاری پر کام کم ہوا ہے۔ ہمارے اساتذہ، ماہرین او راہلِ علم کو اس جانب توجہ دینی چاہیے اور مشاورت کے ادارے قائم کرنے چاہییں۔
میرے لیے کون سا پیشہ بہتر ہوسکتا ہے ؟
کون سا پیشہ بہتر ہوسکتا ہے ؟ اس سلسلے میں درجِ ذیل بنیادی باتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا
صلاحیتیں : صلاحیتوں کا مطلب انسان کی ذہنی اور جسمانی خوبیاں ہیں، لیکن خوبیوں کا اندازہ اس وقت ہوسکتا ہے جب اپنی خامیوں او رکم زوریوں کا احساس ہو۔ ایک نوجوان کی خواہش پائلٹ بننا ہے، لیکن اس کی نظر کم زور ہے، اس لیے وہ پائلٹ نہیں بن سکتا۔ یا کوئی شخص صحافی بننا چاہتا ہے، لیکن اسے زبان پر عبور نہیں تو وہ اس پیشے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اچھی گفتگو کی صلاحیت رکھنے والے وکالت یا سیلز کے پیشے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
تعلیم: تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اب تک جو تعلیم حاصل کی ہے، وہ اس پیشے کی ضرورت کے مطابق ہونی چاہیے جو آ پ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر کا پیشہ اختیار کرنے کی خواہش رکھنے والے کولازماً انٹر میڈیٹ سائنس کا امتحان پری میڈیکل گروپ میں کامیاب کرنا ہوگا ،جب ہی وہ ایم بی بی ایس کے لیے داخلے کا اہل ہوگا۔
ذہانت: زندگی میں کامیابی کے لیے تعلیم کے ساتھ ذہانت لازمی ہے۔ ذہانت کا مطلب اپنے علم اور تجربے کو تجزیے کے ساتھ بروقت استعمال کرنا ہے۔ اچھی یادداشت، ذہانت کو نکھارتی ہے۔ کم سے کم وسائل کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانا بھی ذہانت کا کرشمہ ہے۔ انسان کوئی بھی کیریر منتخب کرے، کامیابی کے لیے ذہانت ضروری ہے۔
رجحان/میلان طبع : ہر شخص کو کوئی ایک یا چند کام آسان لگتے ہیں وہ انھیں دوسروں کے مقابلے میں جلد سیکھ جاتا ہے، ان کے تکنیکی پہلوؤں کو جلد سمجھ لیتا ہے۔ دوسرے افراد کے مقابلے میں یہ برتری اسے اس لیے حاصل ہوتی ہے کہ اس کا رجحان اس خاص کام یاشعبے کی طرف ہوتا ہے۔ بعض نوجوانوں کو الیکٹرونکس کے آلات سے اس قدر دلچسپی ہوتی ہے کہ اس کے اسرار و رموز سے خود بہ خود واقف ہوجاتے ہیں۔ پیشے کے انتخاب میں اپنے رجحان کو لازماً مد نظر رکھنا چاہیے اور اس کے مطابق اپنی ترجیحات میں سے کیریر کا انتخاب کرنا چاہیے۔
دلچسپی : بعض کام جو دوسروں کے لیے مشکل ہوتے ہیں وہ آپ کے لیے آسان ہوں گے اور جو کام آپ کو مشکل نظر آتے ہیں وہ دوسروں کے لیے بہت سہل ہوسکتے ہیں۔ مشکل اور آسان کا یہ سارا کھیل ہماری ذاتی دلچسپی کا نتیجہ ہے۔ جس کام سے ہمیں دلچسپی ہوتی ہے وہ ہمارے لیے آسان ہوجاتا ہے۔ عملی زندگی کے لیے پیشے کا انتخاب کرتے وقت دلچسپی کا عنصر نہایت اہم ہے کیوں کہ انسان کو وہی کام،بہ طور پیشہ اپنانا چاہیے جو اسے دلچسپ نظر آئے۔ کام، دلچسپ، رجحان کے مطابق ہو تو وہ کام نہیں رہتا مشغلہ بن جاتا ہے اور اس کام کو انجامدیتے وقت انسان تھکن محسوس نہیں کرتا خواہ اس میں کتنا ہی وقت صرف کیوں نہ ہو۔ کوشش کرنی چاہیے کہ جو کام آپ کے لیے دلچسپ ہیں وہی آپ کا پیشہ بھی ہوں۔
حالات/ماحول : انسان کا ماحول اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی ماحول پیشے کے انتخاب میں آپ کے فیصلے کو بھی متاثر کرسکتا ہے، آپ کی جدوجہد کا رخ متعین کرسکتا ہے۔ مثلاً ایک کم وسائل رکھنے والے نوجوان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے دسویں جماعت کے بعد ملازمت کرے۔ یہ نوجوان اپنے خاندان کے حالات کے پیشِ نظر دسویں جماعت کے بعد ملازمت کرسکتا ہے اور شام کے کالج میں یا علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے ذریعے اپنی تعلیم جاری رکھ سکتا ہے۔
حالات مشکل ہو ںیا آسان، ان کو زندگی کی حقیقت سمجھ کر قبول کرنا چاہیے اور ان ہی حالات میں اپنا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔
محمد بشیر جمعہ پیشے کے لحاظ سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ آپ نے 1973ء میں گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس سے بی کام کر نے کے بعد اے ایف فرگوسن ایند کمپنی (پرائس واٹر ہاؤس کوپرز) سے سی اے کی تربیت مکمل کی اور 1985 تک وہاں مینیجر کی پوزیشن تک پہنچے۔ 1986 ء میں آپ نے ارنسٹ اینڈ ینگ فورڈ وہوڈز سیدات حیدر میں شمولیت کے بعد1988ء میں پارٹنر کی پوزیشن تک پہنچے۔ فرم کی تکنیکی ذمے داریوں کے ساتھ ان پر تربیتی شعبے اور دیگر شہروں میں دفاتر کی ذمے داری بھی رہی۔ اس وقت آپ فرم کی افغانستان آفس کی ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں۔