تعلیم
خود کو روزگار کے قابل بنایئے
کمال میرے پڑوسی کے بیٹے کانام ہے ۔ کمال کے والد اپنی مدّتِ ملازمت مکمل کرنے کے بعد سبکدوش(ریٹائرڈ) ہوگئے تو کمال کے لیے یہ ضروری ہوگیا کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کی جدوجہد میں اپنے بڑے بھائی کا ہاتھ بٹائیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ملازمت اختیا رکریں۔
متوقع ملازمت کے لیے انھوں نے کالج میں باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ ختم کردیا اور پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے رجسٹریشن کرالیا۔ دو سال سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے، وہ ابھی تک بے روزگار ہیں۔ انھیں کئی جگہ بھیجا گیا لیکن چوں کہ انھیں عملاً کوئی کام نہیں آتا، اس لیے ملازمت نہیں ملی۔ جب انھوں نے اپنی ملازت کے لیے کہا تھا، تب ان سے کہا گیا تھا کہ وہ کوئی ہنر سیکھیں مثلاً ٹائپنگ سیکھ لیں، انھوں نے ٹائپ کاری کے تربیتی ادارے میں داخلہ بھی لیا، لیکن دو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجودانھیں ٹائپ کاری پرعبورنہیں ہے۔اس دوسال میں انھوں نے بارہویں جماعت کامرس سے کامیاب کرلی ہے اور اب بی کام کے سال اوّل میں ہیں لیکن ان کی ملازمت کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا ہے۔
کمال کا معاملہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ ہمارے یہاں لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ لاکھوں نوجوان، جو کسی بھی جگہ ملازمت اختیار کرکے یااپنا کوئی کاروبار شروع کرکے نہ صرف اپنے خاندان کی خوش حالی کا باعث ہوسکتے ہیں بلکہ قومی ترقی میں بھی معاون ہوسکتے ہیں، وہ بے روزگار ہیں۔ اپنی بے روزگاری کا ذمہ دار وہ ملک، حکومت یا معاشرے کو ٹھہراتے ہیں۔ کیا ان کا یہ الزام صحیح ہے ؟
آیئے اب ایک دوسری صورتِ حال کا مشاہدہ کرتے ہیں !
امجد صاحب کو اپنے دفتر کے لیے ایک ایسا دفتری معاون( آفس اسسٹنٹ) چاہیے جو دفتر روزمرہ کے کام انجام دے سکے۔ انھوں نے اپنے دوستوں سے بھی ذکر کیا اور اخبار میں اشتہار بھی دیا۔ بے شمار نوجوان آئے لیکن ان کی ضرورت کے مطابق ایک بھی نہیں ملا۔
کریم صاحب ایک دفتر میں مہتمم(سپرنٹنڈنٹ) کے عہدے پر کام کرتے ہیں انھیں شکایت ہے کہ ان کے یہاں ایک ٹائپ کار کی ضرورت ہے لیکن تین سال میں انھیں اچھا ٹائپ کار نہیں ملا۔
شہاب الدین صاحب کا میکنیکل ورکشاپ ہے، انھیں شکایت ہے کہ پاکستان میں اچھے خرادی (ٹرنر) نہیں ہیں ۔
اچھا محاسب(اکاؤنٹنٹ) اچھا ڈرائیور، اچھا ٹیلی فون/ٹیلکس آپریٹر، اچھا بینکر، اچھا پلمبر، اچھا الیکٹریشن ،ہرجگہ ان کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ لوگ دستیاب نہیں ہیں، جو بھی ہنر مند اپنے کام سے واقف ہے اور تجربہ رکھتا ہے وہ پہلے ہی کسی جگہ کام کررہا ہے۔ جو نئی جگہیں پیدا ہورہی ہیں ان کے لیے ہر شعبے میں ایسے کارکنوں کی شدید قلّت ہے جو خود اعتمادی کے ساتھ آزادانہ طور پر کام کرسکیں۔
گویا ایک طرف ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے اور دوسری جانب روزگار مہیا کرنے والے اداروں کو شکایت ہے کہ انھیں نیم ہنر مند تعلیم یافتہ کارکن نہیں مل رہے۔
یہ نہایت افسوس ناک صورتِ حال ہے لیکن اس ناخوش گوار صور تِ حال پر افسوس کرنے کے بجائے ہمیں اس کو بدلنے کی فکر کرنی چاہیے۔ اس مضمون میں آٹھویں، دسویں اور بارہویں جماعت کامیاب نوجوانوں کو ایسے مشورے دیے جارہے ہیں جن پر عمل کرکے وہ اس صورتِ حال کو تبدیل کرسکتے ہیں اور باعزت روزگار اختیار کرکے اپنی اور اپنے خاندان کی خوش حالی اور ترقی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اپنے آس پاس نظر ڈالیے، محلے اور بازار میں آپ کو لاتعداد ایسے نوجوان نظر آئیں گے جو یا تو بالکل اَن پڑھ ہیں یا انھوں نے دو چار جماعتیں پڑھی ہیں۔ لیکن یہ لوگ دکانوں، کارخانوں، ورک شاپ او ر بازاروں میں مختلف نوعیت کے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ گویا اَن پڑھ یا معمولی پڑھے لکھے ہونے کے باوجود ان لوگوں کو روزگار میسر ہے ۔
آپ تعلیم یافتہ ہیں، میٹرک یا انٹر ہیں۔۔۔آپ کیوں بے روزگار ہیں؟
وجہ صاف ظاہر ہے۔۔۔وہ لوگ اَن پڑھ ہونے کے باوجود’’کام جانتے‘‘ہیں اور آپ صرف تعلیم یافتہ ہیں۔۔۔ آپ ’’کام نہیں جانتے‘‘ ۔۔۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ’’کام جان جائیں‘‘ تو آپ بھی نہ صرف برسرِروزگار ہوسکتے ہیں بلکہ تعلیم کی وجہ سے آپ اَن پڑھ لوگوں پر سبقت بھی حاصل کرسکتے ہیں ۔
یہ بات ذہن میں رکھیے کہ جب تک کوئی کام نہیں آتا، وہ مشکل ہوتا ہے اور جب آدمی سیکھ لے تو مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتا ہے۔ کام سیکھنے کے لیے اپنے رجحان اور پسند کو ضرور اہمیت دیجیے۔ ممکن ہے آپ تکنیکی نوعیت کے کاموں میں دلچسپی رکھتے ہوں ۔اس صورت میں آپ کو خرادی ، الیکٹریشن یا اس سے ملتا جلتا کام سیکھنا چاہیے۔ اگر آپ کو دفتر میں کام کرنا پسند ہے تو نائب قاصد ، دفتری معاون ( آفس اسسٹنٹ) ٹیلی فون آپریٹر، ٹائپ کاری وغیرہ کا کام سیکھیے۔ کام سیکھنے کے کئی طریقے ہیں۔ ذیل میں ان تمام طریقوں اور مواقع کی تفصیل دی جارہی ہے جن کے ذریعے آپ خود ہنر مند(اسکلڈ) کارکن بن سکتے ہیں اور کامیابی حاصل کرسکتے ہیں ۔
کام سیکھنے کے مواقع
آپ درج ذیل تین طریقوں میں سے کسی ایک کے ذریعے کام سیکھ سکتے ہیں:
-1 فیس کی ادائیگی کرکے : کوئی بھی ہنر سیکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی تربیتی ادارے میں فیس ادا کرکے ایک خاص ہنر کا تربیتی نصاب مکمل کریں ۔مثلاً کسی کمرشل انسٹی ٹیوٹ میں مختصر نویسی (شارٹ ہینڈ رائٹنگ) کی تربیت حاصل کریں یا کسی فنی تربیت کے ادارے میں کوئی تکنیکی ہنر، مثلاً ڈرافٹس مین یا ویلڈر یا کسی اور ہنر کی تربیت مکمل کریں۔
اس طریقے کے فائدے یہ ہیں کہ اگر آپ نے کسی اچھے تربیتی ادارے کا انتخاب کیا ہے تو آپ ایک مقررہ مدت میں ایک باقاعدہ نصاب کے تحت اس ہنر کے نظری اور(تھیوری اور پریکٹیکل) پہلوؤں سے واقف ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ تربیت چھ ماہ کی ہے تو چھ ماہ میں ہی مکمل ہوجاتی ہے۔
اس طریقے میں، تربیت حاصل کرنے والے کو ’’سیکھنے‘‘ کے اخراجات فیس کی صورت میں ادا کرنے ہوتے ہیں جو چند سو روپے سے چند ہزار روپے تک (ہنر کی نوعیت/نصاب کی مدت وغیرہ کے لحاظ سے ) ہوسکتی ہے ۔
پاکستان میں اس قسم کی فنی تربیت فراہم کرنے والے ادارے دو طرح کے ہیں۔ ایک سرکاری اور دوسرے نجی ۔
سرکاری اداروں میں درج ذیل ادارے شامل ہیں
پولی ٹیکنیکس : یہاں بالعموم تین سال کے کورس ہوتے ہیں ۔
ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر: ان اداروں میں 9 ماہ سے 2 سال تک مختلف نوعیت کے تیکنیکی کورس کرائے جاتے ہیں جوبہت مفید ہوتے ہیں ۔
کمرشل ٹریننگ سینٹر: ان اداروں میں ٹائپ کاری، مختصر نویسی اور تجارت(کامرس) سے متعلق کورس کرائے جاتے ہیں ۔
اسمال انڈسٹریز کارپوریشنز کے تربیتی مراکز : پنجاب اور سندھ میں اسمال انڈسٹریز کارپوریشنز اور سرحد و بلوچستان میں ڈائریکٹوریٹ آف انڈسٹری کی جانب سے مختلف علاقائی دست کاریوں اور تیکنیکی ہنروں کی تربیت کے مراکز قائم ہیں جہاں تین ماہ سے ایک سال کی مدت کے کورسز کرائے جاتے ہیں۔ ان اداروں میں برائے نام فیس وصول کی جاتی ہے ۔
-5 خواتین کی تربیت کے ادارے: پاکستان کے بڑے شہروں میں خواتین پولی ٹیکنیکس ہیں جہاں تین سال کا نصاب مکمل کرایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وزارتِ صنعت اور ویمن ڈویژن کے تحت خواتین کے تربیتی مراکز اور انڈسٹریل ہومز ہیں جہاں6 ماہ سے 18 ماہ تک کے مختلف کورسز کرائے جاتے ہیں ۔
-6 مختلف سرکاری اداروں کے تربیتی مراکز : مختلف وفاقی اور صوبائی وزارتوں کے تحت ملک کے مختلف علاقوں میں علاقائی ضرورت کے مطابق فنی تربیت کے مراکز قائم ہیں جہاں ایک سال سے دو سال تک کے کورسز کرائے جاتے ہیں ۔
فنی تربیت کے نجی ادارے
ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں متعدد نجی کاروباری اور فلاحی اداروں کی طرف سے تجارتی بنیاد پر یا نہ نفع نہ نقصان کی بنیاد پر قائم ہیں جہاں نوجوانوں کو مختلف فنون اور ہنروں کی تربیت دی جاتی ہے۔ ان اداروں میں بھی بالعموم 6 ماہ سے 18 ماہ تک کے کورس کرائے جاتے ہیں۔
وظیفے کے ساتھ کام سیکھنا
کام سیکھنے کا یہ طریقہ ایسا ہے جہاں آپ کو کام بھی سکھایا جاتا ہے اور وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ اسے شاگرد پیشہ تربیت یا اپرنٹس شپ ٹریننگ کہتے ہیں ۔
حکومتِ پاکستان کے اپرنٹس شپ ٹریننگ آرڈیننس 1962ء اور رولز 1966 ء کے تحت ہر اس صنعتی ادارے کے لیے جہاں 50 سے زائد کارکن ملازم ہوں، یہ لازم ہے کہ وہ باقاعدہ ملازموں کی تعداد کے 20 فیصد کے برابر اپرنٹس رکھے۔ اپرنٹس کی عمر 14 سے 25 سال کے درمیان ہوتی ہے اور اس کی تعلیمی لیاقت آٹھویں سے بارہویں جماعت کامیاب ہوسکتی ہے۔ تربیت کی مدت، فنی شعبے یا ہنر کی نوعیت کے اعتبار سے 18 ماہ سے 36 ماہ ہوتی ہے۔ اس وقت صوبہ سندھ کی صنعتوں میں 8 ہزار اپرنٹسوں کی گنجائش ہے ۔
مختلف صنعتی ادارے ہر سال میٹرک/انٹر کے نتائج کے اعلان کے بعد اخبارات میں اشتہار کے ذریعے اپرنٹس شپ کے لیے درخواستیں وصول کرتے ہیں ۔
بلا معاوضہ کام سیکھنا
کام سیکھنے کا یہ تیسرا طریقہ ہے جو ہمارے نوجوانوں نے نظر انداز کیا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے فائدہ اٹھا کر ہزاروں بے روزگار نوجوان اپنی صلاحیت اور لیاقت میں اضافہ کرکے خود کو روزگار کے قابل بناسکتے ہیں ۔
میٹرک یا انٹرکے امتحان کے بعد اگلی جماعت میں داخلے تک ، طویل تعطیلات ہوتی ہیں۔ سندھ میں تو ان تعطیلات کی مدت تقریباً سال بھر ہے۔ اکثر نوجوان یہ قیمتی وقت بالکل ضائع کردیتے ہیں۔ اس وقت سے فائدہ اٹھایئے اور خود کو مستقبل کے لیے تیار کیجیے ۔
پہلے اپنے عزیزوں، والد یا بڑے بھائیوں کے دوستوں میں سے ایسے افراد تلاش کیجیے جو کسی تجارتی یا صنعتی ادارے میں ذمہ دار عہدے پر ہوں۔ ان سے رابطہ کیجیے اور اپنی خدمات پیش کیجیے کہ میں آپ کے دفتر/فیکٹری میں بلا معاوضہ کام کرنا چاہتا ہوں، بعد میں کسی بھی مرحلے پر جب آپ سمجھیں کہ میں آپ کے ادارے کے لیے مفید ثابت ہورہا ہوں، تو آپ مجھے جس قدر چاہیں وظیفہ/تنخواہ دے سکتے ہیں ۔
یقین کیجیے کہ ہر ادارہ آپ کا خیر مقدم کرے گا لیکن اہم بات یہ ہے کہ آپ کسی کے توسّط سے جائیں۔ بالکل اجنبی نوجوان کو اپنے دفتر/فیکٹری میں رکھنے میں لوگوں کو تامّل ہوگا۔
ہر دفتر/فیکٹری کے مختلف شعبے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی خاص شعبہ پسند ہے تو پہلے بتا دیجیے کہ میں فلاں شعبے(مثلاً شعبہ حسابات) میں کام کرنا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے کہ وہ آپ کو اپنی ضرورت کے پیشِ نظر کسی دوسرے شعبے میں بھیجیں۔ آپ کو جہاں بھی تعینات کیا جائے وہاں ایک طالب علم کی طرح کام کو دیکھیے، سمجھیے اور بغیر غلطی کے کرنے کی کوشش کیجیے۔ دفتر/فیکٹری کے لوگوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے کام لیجیے۔ ہمیشہ خود کو سیکھنے پر آمادہ رکھیے، اور وقت کی پابندی کا خیال رکھیے۔
اس طریقے سے آپ چھ ماہ سے ایک سال کی مدت میں کوئی بھی کام اس حد تک ضرور سیکھ جائیں گے کہ اسے خود اعتمادی کے ساتھ انجام دے سکیں۔ یاد رکھیے کہ ہر کام اہم ہوتا ہے۔ ٹیلی فون آپریٹر کا کام بہ ظاہر معمولی دکھائی دیتا ہے لیکن اگر آپ کو کسی ادارے کے پی بی ایکس بورڈ پر بٹھا دیا جائے تو آپ کے لیے کام کرنا اس وقت تک ناممکن ہوگا جب تک آپ اسے سیکھ نہ لیں اور یقین کیجیے کہ یہ کام آپ ایک ماہ میں سیکھ سکتے ہیں ۔
یہ طریقہ صرف طالب علموں کے لیے ہی مفید نہیں ہے بلکہ ان تمام بے روزگار نوجوانوں کے لیے بھی موء ثر ہے جو کئی کئی مہینے اور بعض اوقات کئی سال بے روزگار رہ کر کی وجہ ان کا یا تو کام نہ جاننا ہوتا ہے یا کام پر عبور نہ رکھنا۔ اس لیے ایک سال یا زیادہ عرصہ بے روزگار رہ کر وقت ضائع کرنے سے بہتر ہوگا کہ آپ چھ ماہ کسی ادارے میں بلا معاوضہ کام کریں، اپنے فن پر عبور حاصل کریں اور خود کو زیادہ مفید کارکن بنائیں ۔
کام سیکھنے کے لیے وقت کہاں سے مل سکتا ہے ؟
کوئی ہنر سیکھنے کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا؟ اس کی مقدار کام سیکھنے کے طریقوں اور کام کے لحاظ سے مختلف ہوگی۔
کسی کالج ، پولی ٹیکنیک یا ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں کام سیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو کل وقتی تربیت حاصل کرنا ہوگی۔
کسی نجی ادارے میں صبح یا شام کے اوقات میں 2 سے 4 گھنٹے روزانہ کے تربیتی پروگرام کے لیے آپ اپنی مصروفیات کے لحاظ سے وقت نکال سکتے ہیں (مثلاً میٹرک کی تعلیم کے دوران شام کو روزانہ ایک گھنٹہ ٹائپ کاری یا کمپیوٹر ڈیٹا آپریٹر کی تربیت کے لیے بآسانی نکال سکتے ہیں) ۔
موسمِ گرما کی تعطیلات اور خصوصاً میٹرک اورانٹر میڈیٹ کے امتحانات کے بعد اگلی جماعت میں داخلہ شروع ہونے تک کا طویل عرصہکام سیکھنے کے لیے بہترین وقت ہوتا ہے۔
آپ کے گھر کے نزدیک اگر کوئی ایسا ادارہ ہے جہاں آپ کو بلا معاوضہ کام سیکھنے کا موقع مل سکتا ہے تو باہمی طور پر طے کرکے ہفتے کے مقررہ دن یا ہر روز مقررہ اوقات میں آپ کام سیکھنے کے لیے وقت نکال سکتے ہیں ۔
ضروری نکات
پولی ٹیکنیک، ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ، ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز میں داخلوں کے اشتہارات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں، اس لیے اخبارات کا باقاعدہ مطالعہ جاری رکھیے ۔
اپرنٹس شپ ٹریننگ کے اشتہارات بھی اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ اخبار کا مطالعہ اپنی عادت بنا لیجیے۔
بلا معاوضہ کام سیکھنے کے لیے کسی بھی ادارے سے براہ راست رابطہ مفید نہیں ہوگا۔ خاندان کے بزرگوں، محلے کے معزّز حضرات یا اپنے دوستوں کے والد /بھائیوں کے ذریعے اس طریقے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کیجیے ۔وقت ضائع کرتے ہیں۔