Connect with us

تعلیم

بارھویں جماعت کے بعد کیا کریں ؟

Published

on

نوجوان طلبہ و طالبات مقصدِ زندگی کو متعین کیے بغیر اور  تمام ممکنہ راستوں کوذہن میں رکھے بغیر پڑھے چلے جاتے ہیں

ندیم کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے ہے۔ بارہویں جماعت کا امتحان انھوں نے اوّل درجے (فرسٹ ڈویژن) سے کامیاب کیا لیکن اتنے نمبر نہیں آسکے کہ میڈیکل میں داخلہ ملتا۔ بھائی کے مشورے سے انھوں نے بی ایس سی میں داخلہ لے لیا، اس سال انھوں نے بی ایس سی بھی اوّل درجے سے کامیاب کرلیا۔ اب ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں؟ پڑھیں تو کیا پڑھیں اور اگرتعلیم چھوڑ کر عملی زندگی میں داخل ہوں تو کون سا پیشہ اختیار کریں؟ ذاتی طور پر ان کی خواہش یہ ہے کہ ڈاکٹربنیں لیکن اس خواہش کی تکمیل کے لیے انھیں جتنی محنت کرنی چاہیے تھی، وہ نہیں کرسکے۔ ایک دن ان کے بڑے بھائی نے مجھ سے کہا کہ آپ ندیم کے لیے فلاں ملک کے قونصل خانے سے یہ معلومات حاصل کرکے لا دیجیے کہ وہاں میڈیکل کی تعلیم کے اخراجات کیا ہیں اورداخلے کا طریقہ کار وغیرہ کیا ہے ؟ ان سے عرض کیا کہ اس کام کے لیے نہ آپ مجھ سے کہیے اور نہ کسی اور سے بلکہ ندیم کو خود بھیجئے کہ وہ قونصل خانے جاکر مطلوبہ معلومات حاصل کریں۔ انھوں نے جواب دیا کہ وہ راستوں سے واقف نہیں۔ میں نے پوچھا کہ اگر آپ کا بھائی اپنے شہر میں دس بارہ میل کے فاصلے پر جاکر چند معلومات حاصل نہیں کرسکتا تو ہزاروں میل دورایک اجنبی ملک میں جاکر تعلیم کیسے حاصل کرے گا؟

یہ واقعہ دو اہم باتوں کی جانب اشارہ کرتا ہے :ایک یہ کہ ہمارے بیش ترنوجوان طلبہ و طالبات مقصدِ زندگی کو متعین کیے بغیر اور اس مقصد کے حصول کے تمام ممکنہ راستوں کوذہن میں رکھے بغیر پڑھے چلے جاتے ہیں۔اور جب کسی مرحلے پر کسی رکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے تو پھر وہ حیران او رپریشان ہوتے ہیں کہ اب کیا کریں ؟

دوسری اہم بات ، اپنے بچوں کے بارے میں والدین اورسرپرستوں کا رویہ یہ ہے کہ وہ انھیں ان کی صلاحیتوںاورحیثیت کے مقابلے میں کم تر تصور کرتےہیں۔ ان کے بارے میں غلط اندازے لگاتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ٹیلی ویژن ، وی سی آر ، اخبارات و جرائد اور دیگر ذرائع ابلاغ کی وجہ سے آج کی نسل کے بچے ، نوعمر اور نوجوان اپنے پیش روﺅں سے کہیں زیادہ ذہین،باصلاحیت، باحوصلہ اور باخبر ہیں۔ اس مضمون میں طلبہ و طالبات سے جو گفتگو کرنی ہے وہ اس واقعے کے پہلے قابلِ توجہ حصے سے متعلق ہے یعنی تعلیم اور زندگی کے مقصد کا تعین، اس مقصد کے حصول کے لیے تمام ممکنہ راستوں کی تلاش اور ان راستوں پر آگے بڑھنے کے لیے وسائل کی جستجو ۔

ضرورت تو اس بات کی ہوتی ہے کہ آٹھویں جماعت کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد ہی اپنے مستقبل کے پیشے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا جائے۔ ہوائی محل بنانے اور خیالی پلاﺅ پکانے کی طرح نہیں بلکہ حقیقت پسندی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں اورصحت کا جائزہ لیتے ہوئے کوئی ایک یا دو پیشے منتخب کیے جائیں اور ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کی جائیں۔ یہ معلومات اپنے بزرگوں، دوستوں کے والد اور بھائیوں، اخبارات، رسائل اور دیگر ذرائع سے حاصل ہوسکتی ہیں۔ اس مرحلے پر بعض بنیادی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے مثلاً یہ کہ اگر کسی کی خواہش لڑاکا ہواباز(فائٹرپائلٹ) بننے کی ہے لیکن نظر کمزور ہے اورعینک استعمال کرنا پڑتی ہے تو وہ شخص ہوابازنہیں بن سکتا اس لیے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے کسی او رپیشے کے بارے میں سوچنا چاہیے ۔

دسویں جماعت کے بعد ایک بار پھر موقع ہوتا ہے کہ آئندہ تعلیم کے لیے شعبے کا انتخاب کیا جائے جو مستقبل کے مجوزہ پیشے سے مناسبت رکھتا ہو۔ اعلیٰ ثانوی تعلیم (انٹرمیڈیٹ)شروع کی جائے تواس مرحلے میں سخت محنت کرنا چاہیے کیوںکہ مستقبل میں کامیابی کا انحصار بارہویں جماعت کے نتیجے پر ہوتا ہے۔ سائنس کے طلبہ و طالبات کوخاص طور پر شدید محنت کی ضرورت ہوتی ہے کیوںکہ میڈیکل اورانجینئرنگ کالج میں داخلے کے لیے ہرسال سخت مقابلہ ہوتا ہے اور بے شمار طلبہ اوّل درجے میں کامیاب ہونے کے باوجود داخلہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اندرون ملک داخلے میں ناکامی کے بعد وہ طلبہ و طالبات جن کے والدین یا سرپرست صاحب حیثیت ہوتے ہیں، بیرون ملک داخلہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ہر ایک کے لیے اس راستے کو اختیار کرناممکن نہیں ہے ۔

پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں میڈیکل اورانجینئرنگ کی پیشہ ورانہ تعلیم کے کالج اوریونی ورسٹیاں موجود ہیں ۔ ہرسال پورے ملک میں ہزاروںکی تعداد میں سائنس پری میڈیکل کے طلبہ و طالبات بارہویں جماعت کامیاب کرکے فارغ ہوتے ہیں اور یہ تمام میڈیکل کالج میں داخلے کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن ان کالجوں میں نشستیں محدود ہوتی ہیں اس لیے صرف وہی طلبہ و طالبات داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جنھوں نے زیادہ نمبر حاصل کیے ہوتے ہیں۔

میڈیکل کالج میں داخلے میں ناکام طلبہ و طالبات کے لیے طب ہی کے پیشے میں دوسرے شعبے بھی ہوتے ہیں جنھیں وہ اپنی عملی زندگی کے لیے اختیار کرسکتے ہیں ۔
فارمیسی طب کا اہم شعبہ ہے۔ ملک کی جامعات میں فارمیسی کی اعلیٰ تعلیم کے مواقع موجود ہیں اور متعدد طلبہ بی فارمیسی اور ایم فارمیسی کی تعلیم و تربیت حاصل کرکے اس شعبے کو بہ طور پیشے اپناتے ہیں اورکامیاب زندگی گزارتے ہیں ۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ طب کے شعبے میں بھی مشینوں اور آلات کا استعمال روز بہ روز بڑھتا جارہا ہے۔ اسکینر، ایکسرے، ای سی جی، الٹرا ساؤنڈ اور دیگر مشینیں عام استعمال میں آتی جارہی ہیں۔ طب کی مشینوں اور آلات کے بہتر اور مفید استعمال کے لیے تعلیم یافتہ سمجھ دار اور دلچسپی رکھنے والے افراد کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ شعبہ نوجوانوں کے لیے دلچسپ اور مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ مختلف مشینوں اور آلات کی تربیت مختلف اسپتالوں میں دی جاتی ہے جن کے اشتہارات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔
میڈیکل کا ایک اور اہم شعبہ کلینکل لیبارٹری ہے۔ کسی بھی مرض کے درست اور موء ثر علاج کے لیے مرض کی صحیح تشخیص بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور امراض کی تشخیص کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ ضروری ہوتے ہیں۔ لیبارٹری کے کارکن لیبارٹری ٹیکنیشن کہلاتے ہیں۔ پاکستان میں اعلیٰ معیار کی کلینکل لیبارٹریز قائم ہیں جو پری میڈیکل میں بارہویں جماعت کے کامیاب نوجوانوں کو اس کام کی تربیت دیتی ہیں۔ عام طور پر تربیت حاصل کرنے والے نوجوانوں کو روزگار بھی فراہم کردیا جاتا ہے۔

ڈاکٹروں کے علاوہ طب کے پیشے میں پیرا میڈیکل اسٹاف بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ٹیکنیشنز، نیو ٹریشنز (ماہر غذائیات) آپریشن تھیٹر میں کام کرنے والے ماہرین، یہ سب مل جل کر ہی کسی اسپتال یا میڈیکل یونٹ کی کامیابی کی ضمانت دیتے ہیں۔ مرد اور خواتین نرس اور صحتِ عامہ کے کارکن، ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں ان سب کا حصہ ہے۔ یہ تمام پیشے طب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں تربیت حاصل کرکے نہ صرف اپنے شوق کی تکمیل اور روزگار کی ضمانت حاصل کی جاسکتی ہے، بلکہ یہ بیماروں کی خدمت کے مقدس کام میں شرکت بھی ہے ۔

پری انجینئرنگ کے ساتھ بارہویں جماعت کامیاب کرنے والے نوجوانوں کا ہدف انجینئرنگ کالج یا یونی ورسٹی میں داخلہ حاصل کرنا ہوتا ہے ۔
انجینئرنگ کی تمام جامعات اور کالجوں میں بھی داخلے اوپن میرٹ اور کوٹے کی بنیاد پر ہوتے ہیں، یہاں بھی وہی صورت ہوتی ہے کہ انجینئرنگ میں داخلے کے خواہش مند طلبہ کو محدود نشستوں کی وجہ سے داخلہ نہیں مل سکتا۔
انجینئرنگ کے شعبے کو بہ طور پیشہ اپنانے والوں کے لیے میڈیکل سے زیادہ مواقع ہوتے ہیں جو طلبہ انجینئرنگ کالج یا یونی ورسٹی میں داخلہ حاصل نہیں کر پاتے ان کے لیے پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ موجود ہیں جہاں وہ تین سال کا ڈپلوما کورس کرسکتے ہیں۔ ڈپلومہ کے حصول کے بعد وہ عملی زندگی میں بہ طور ایسوسی ایٹ انجینئر قدم رکھ سکتے ہیں اور اگر آگے پڑھنے کے خواہش مند ہوں تو بی ٹیک کی سند حاصل کرکے پیشہ ور انجینئر بن سکتے ہیں۔

رسم تعلیم کے اداروں کے علاوہ ملک کے بڑے شہروں میں متعدد ایسے تربیتی اور صنعتی ادارے ہیں جو بارہویں کامیاب نوجوانوں کو انجینئرنگ سے متعلق کسی مخصوص شعبے میں دو سال سے چار سال تک کی عملی تربیت دیتے ہیں۔ ان اداروں میں مختلف انسٹی ٹیوٹس کے علاوہ متعدد بڑے صنعتی ادارے مثلاً اسٹیل مل، ریفائنریز ، واپڈا اور کے ای ایس سی، شپ یارڈ، پیکو اور نجی شعبے کے بے شمار صنعتی ادارے شامل ہیں جو اپرنٹس شپ آرڈیننس کے تحت دسویں اور بارہویں جماعت کامیاب نوجوانوں کو عملی تربیت فراہم کرتے ہیں اور روزگار بھی مہیا کرتے ہیں ۔


انجینئرنگ اور پری میڈیکل میں بارہویں جماعت کامیاب ایسے امیدوار جو ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے ساتھ فوجی زندگی سے دلچسپی رکھتے ہوں وہ آرمی میڈیکل کالج اور آرمی اور فضائیہ کے انجینئرنگ کالجوں میں داخلے کے لیے کوشش کرسکتے ہیں۔ ہر سال بارہویں جماعت کے نتائج کے بعد مسلح افواج کے میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالجوں میں داخلے کے لیے درخواستیں طلب کی جاتی ہیں۔ مسلح افواج کی تینوں شاخوں یعنی بری فوج ، فضائیہ اور بحریہ میں انتخاب ان کے اپنے مقرر کردہ امتحانات کی کامیابی پر منحصر ہوتا ہے۔
پاکستان کے قومی بینک بھی سائنس کے ساتھ بارہویں جماعت کامیاب نوجوانوں کو بہ طور افسر تربیت کے لیے منتخب کرتے ہیں اور انھیں بینکاری کی تربیت دے کر روزگار فراہم کرتے ہیں ۔

بعض صاحبِ حیثیت والدین کے بچے جب اندرون ملک داخلوں میں ناکام رہتے ہیں تو وہ دوسرے ملکوں کا سفر اختیار کرتے ہیں لیکن اس مرحلے پر یہ بات سوچنا چاہیے کہ بیرون ممالک میں تعلیمی زندگی اپنے ملک سے زیادہ محنت طلب، سخت اور دشوار ہوتی ہے۔ وہاں جاکر جو محنت کی جائے گی اگر اتنی ہی محنت پہلے اپنے ملک کے اندر کرلی جائے تو ممکن ہے یہاں ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بیرونِ ملک تعلیم کے فوائد اور مثبت پہلو ضرور ہیں لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی تو ہے کہ بیرونِ ملک تعلیم پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم سے کہیں زیادہ مہنگی ہے ۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *