بلاگ
علم الادویات (فارمیسی)کا تعارف
کسی دوا کو تیار کرنے کے لیے اس کے اجزا کا انتخاب اور ان اجزا کے خواص و اثرات کی تحقیق، مختلف امراض کے لیےمختلف جڑی بوٹیوں اور کیمیائی عناصر کو مفرد یا مرکب طور پر استعمال کرنے کے طریقے، مرکب دوا کی صورت میں مختلف اجزا کا تناسب، مرض کی نوعیت ماحول اور وبائی امراض کی صورت میں دواؤں کی دستیابی، دواؤں کی تقسیم اسپتالوں اور شفا خانوں میں یا ذخیرہ گاہوں میں انھیں ذخیرہ کرنے کا علم، معالج کی تشخیص مرض اور اس کے مشورے کے مطابق مریض کو دوا کی فراہمی۔۔۔ یہ تمام اعمال علم الادویات کے زمرے میں آتے ہیں اور اس علم کی باقاعدہ تعلیم و تربیت حاصل کرکے بیمارانسانوں کی خدمت کرنا طب کے مفید عام اور باوقار پیشے کا اہم حصہ ہے۔
پاکستان میں علم الادویات کی تعلیم
پاکستان میں علم الادویات کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز 1948ء میں جامعہ پنجاب سے ہوا اور آزادی کے ایک سال بعد جامعہ پنجاب میں فارمیسی کا ڈگری کورس شروع کیا گیا۔ 1964ء میں جامعہ کراچی میں فارمیسی کا شعبہ قائم ہوا جو 1974ء میں فارمیسی کے مکمل کلیہ (فیکلٹی) میں تبدیل ہوگیا۔1964ء سے قبل، داؤ میڈیکل کالج میں فارمیسی کا تین سالہ ڈپلوما کورس ہوتا تھا جو جامعہ کراچی میں شعبہ فارمیسی کے قیام کے بعد بند کر دیا گیا۔ 1964ء کے بعد جامعہ گومل (ڈیرہ اسماعیل خان)، بہا والدین زکریا یونی ورسٹی (ملتان)، جامعہ سندھ(جام شورو)، جامعہ بلوچستان (کوئٹہ) اور جامعہ پشاور میں فارمیسی کی تدریس کا آغاز ہوا۔ 1981ء تک بی فارمیسی کا نصاب تین سال کا ہوتا تھا لیکن 1982ء سے پورے پاکستان میں بی فارمیسی کا نصاب چار سال کا کردیا گیا۔
اس وقت پاکستان میں بی فارمیسی کی تعلیم کے سات ادارے ہیں جن کے نام درجِ ذیل ہیں۔
1۔کلیہ علم الادویات، جامعہ پنجاب 5۔شعبہ علم الادویات، بہاو الدین زکریا یونی ورسٹی ملتان
2۔ کلیہ علم الادویات، جامعہ کراچی 6۔ شعبہ علم الادویات، جامعہ پشاور
3۔شعبہ علم الادویات، جامعہ سندھ 7۔شعبہ علم الادویات ، جامعہ بلوچستان، کوئٹہ
4۔شعبہ علم الادویات، جامعہ گومل
جامعہ پنجاب اور جامعہ کراچی میں بی فارمیسی کے علاوہ مقررہ نصاب کی تکمیل کے بعد ایم فارم، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اسناد بھی دی جاتی ہیں، جب کہ جامعہ سندھ میں بی فارمیسی کے علاوہ ایم فارم کی تدریس بھی ہوتی ہے۔
نصاب
بی فارمیسی کے چار سالہ نصاب میں علم الادویہ، علم دوا سازی، ریاضی، فعلیات، حیاتی کیمیا، ادویاتی کیمیا، شماریات،دواشناسی یا خواص الادویہ، سماجیات، اقتصادیات،معارفِ اسلامیہ یا مطالعہء پاکستان کے مضامین شامل ہیں۔
ایم فارم کی سند کے لیے فارمیسی کے مندرجہ ذیل چار شعبوں میں سے کسی ایک میں داخلہ لیا جاسکتا ہے۔ یہ چاروں شعبے جامعہ کراچی اور جامعہ پنجاب کے ایم فارم کے پروگرام میں شامل ہیں۔
1۔علم الادویہ (فارماکولوجی) 2۔علمِ دوا سازی (فارما سیوٹکس) 3۔ادویاتی کیمیا (فارما سیوٹیکل کیمسٹری) 4۔خواص الادویہ (فارما کو گنوسی)
داخلے کے لیے اہلیت
بی فارمیسی کے چار سالہ نصاب میں داخلے کے لیے ضروری ہے کہ امیدوار نے بارہویں جماعت کا امتحان (پری میڈیکل) درجہ اوّل کے ساتھ کامیاب کیا ہو یا اس کے مساوی سندکا حامل ہو۔ داخلے کے لیے ترجیحات کا تعین درجِ ذیل بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
’’اے کیٹیگری‘‘ :بی ایس سی فرسٹ ڈویژن مع انٹر سائنس (پری میڈیکل)
انٹر سائنس (پری میڈیکل) فرسٹ ڈویژن
انٹر سائنس (پری میڈیکل) سیکنڈ ڈویژن مع ڈپلوما ان فارمیسی
’’بی کیٹیگری‘‘: بی ایس سی سیکنڈ ڈویژن مع انٹر سائنس (پری میڈیکل) سیکنڈ ڈویژن
ایم ایس سی سیکنڈ ڈویژن مع انٹر سائنس (پری میڈیکل)
’’سی کیٹیگری‘‘: انٹر سائنس (پری میڈیکل) سیکنڈ ڈویژن بی ایس سی سیکنڈ ڈویژن مع انٹر سائنس (پری میڈیکل) تھرڈ ڈویژن
فارمیسی کا شعبہ ان نوجوانوں کے لیے خاص طور پر نہایت دلچسپی کا حامل ہے جو ایم بی بی ایس میں داخلے کے خواہش مند ہوتے ہیں، لیکن مطلوبہ نمبر حاصل نہ کرنے کی وجہ سے ان کا داخلہ کسی میڈیکل کالج میں ممکن نہیں ہوتا۔
میڈیکل سائنسز کی دنیا نہایت وسیع ہے۔ ضروری نہیں کہ ایک شخص صرف ایم بی بی ایس کر کے ہی طب کی دنیا میں داخل ہو، ایم بی بی ایس میڈیکل سائنسز کا جتنا اہم شعبہ ہے، فارمیسی بھی اسی قدر اہم ہے۔ ڈاکٹر صرف مرض کی تشخیص کرتا ہے جب تک مریض کو صحیح دوا صحیح طریقے سے مہیا نہ کیا جائے اس کا مرض دور نہیں ہوسکتا۔ مغربی ممالک میں تو بالعموم ڈاکٹر حضرات مریض کا معائنہ کرکے صرف مرض تشخیص کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ فارما سسٹ کرتا ہے کہ متعدد دوائیوں میں سے کون سے مریض کے لیے کون سی دوا زیادہ موء ثر ثابت ہوگی۔
ذاتی صلاحیتیں
علم الادویات کا پیشہ ان نوجوانوں کے لیے درخشاں مستقبل اور کامیابیوں کا ضامن ہوسکتا ہے جو باریک بیں، جزرس اور ہر معاملے میں احتیاط پسند ہونے کے ساتھ منطقی ذہن رکھتے ہوں۔ سائنس کی طرف ذہنی رجحان بنیادی اہمیت کا حامل ہے علاوہ ازیں ان میں ذمہ داری اور فرض شناسی کا احساس بہ درجہ اتم ہونا چاہیے وہ اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ نہ صرف اپنا کام منظم طریقے سے کرسکیں بلکہ دوسرے افراد سے بھی نظم و ضبط کے ساتھ کام لینا جانتے ہوں۔ شفاخانوں اور دوائیوں کی دکانوں میں کام کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ابلاغ کی بہترین صلاحیت رکھتے ہوں اور متعلقہ افراد کو ہدایات واضح طور پر دے سکیں۔ مریضوں سے معاملات میں بھی واضح طور پر انھیں دوا کے استعمال کا طریقہ سمجھا سکیں اور ان کی گفتگو سے کسی قسم کا ابہام پیدا نہ ہوتا ہو۔
جو نوجوان ذاتی کاروبار میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کے لیے کاروباری ذہن اور فکر کا حامل ہونا لازمی ہے اس کے ساتھ ہی لوگوں سے کام لینے کی صلاحیت اور اپنے ماتحتوں کو تربیت دینے کی اہلیت بھی ہونی چاہیے۔
عملی زندگی میں کام کی نوعیت
ایک دوا ساز یا فارماسسٹ کو مندرجہ ذیل تین شعبوں میں سے کسی ایک میں کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے :
1۔ کمیونٹی فارماسسٹ: ادویات کی دوکانوں میں کام کرنے والے دوا ساز کو کمیونٹی فارماسسٹ کہتے ہیں۔ یہ حضرات ڈاکٹر کے نسخوں کے مطابق دوائیں تیار کرتے ہیں۔ بالعموم دوائیں تیار شدہ اور سربند ہوتی ہیں۔ تاہم نسخے کے مطابق احتیاط کے ساتھ دوا کی فراہمی دوا ساز کی ذمہ داری ہے جہاں کوئی دوا مختلف اجزا کو ملا کر تیار کرنے کا معاملہ ہو وہاں دوا ساز کو دوا کے اجزا کا وزن کرنا یا ناپنا ہوتا ہے یہ کام نہایت احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ دوا فراہم کرنے کے بعد ایک بار پھر نسخے کے مطابق اس کی تصدیق ضروری ہوتی ہے کہ دوا کی خوراکیں صحیح بنائی گئی ہیں یا نہیں۔ ایک خاص احتیاط یہ پیشِ نظر رکھنی ہوتی ہے کہ ڈاکٹر نے کسی غلط فہمی کی وجہ سے دو ایسی دوائیں تو بہ یک وقت تجویز نہیں کر دیں جن کا بہ یک وقت استعمال مریض کے اندر نئی پیچیدگیاں پیدا کرنے کا سبب بن جائے اگر ایسی کوئی صورت ہو تو نسخہ ڈاکٹر کے دوبارہ غور کے لیے اس بات کی نشان دہی کے ساتھ واپس کیا جاتا ہے۔
بعض دوائیں زہریلے اثرات یا نشہ آور اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ ان کی فراہمی میں مزید احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اس قسم کی ادویات کی آمد اور فروخت کا ریکارڈ ایک رجسٹر میں رکھا جاتا ہے۔ مریض کو دوا فراہم کرنے کے ساتھ اس کے بارے میں اہم باتیں بتائی جاتی ہیں اور استعمال کا طریقہ سمجھایا جاتا ہے پرہیز اور دوا کو محفوظ رکھنے کے بارے میں ہدایت دینی ہوتی ہے۔ خریدار اگر مزید کسی بات کی وضاحت طلب کرے تو اسے مطلوبہ معلومات فراہم کرنی ہوتی ہیں۔
دوائیوں کی بڑی دکانوں میں عملے کے ارکان دو سے زائد افراد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ سینئر فارماسسٹ کو دیگر کارکنوں سے کام بھی لینا ہوتا ہے اور ان کی کارکردگی پر بھی نظر رکھنا ہوتی ہے۔ ہر مریض یا خریدار کو نسخہ اور اس کی ضرورت کے مطابق دوا کی فراہمی سینئر فارماسسٹ کی ذمہ داری ہے اور وہ اس ذمہ داری سے اسی وقت عہدہ برآ ہوسکتا ہے جب اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو ان کے پیشے کی تربیت فراہم کرتا رہے۔
2۔ اسپتال فارماسسٹ : چھوٹے، بڑے سرکاری و غیر سرکاری شفا خانوں میں کام کرنے والے پیشہ ور دوا ساز دوائیوں کی تیاری اور انھیں اندرونی و بیرونی مریضوں تک پہنچانے کے قانونی، پیشہ ورانہ اور انتظامی امور کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ شفا خانے کی ضروریات کے مطابق دوا ساز اداروں سے ادویات منگوانا (خریدنا) ان کے معیاری ہونے کی پڑتال کرنا، دواؤں کو احتیاط سے ذخیرہ کرنا اور ان کی حفاظت کا اہتمام کرنا، نرسوں اور عملے کے دیگر متعلقہ افراد کو نئی ادویات کے بارے میں مطلع کرنا اور ان کے صحیح استعمال سے آگاہ کرنا اور دوا کے ذریعے علاج کے دوران کسی امکانی مسئلے سے نبٹنے کے لیے ہدایات دینا، اسپتال فارماسسٹ کے فرائض میں شامل ہے۔ اسپتالوں میں کام کرنے والے پیشہ ور دوا ساز، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ دوائیں صحیح طریقے سے محفوظ رکھی جائیں اور نرسیں مریضوں کو صحیح دوائیں فراہم کرتی رہیں۔۔۔شفا خانوں میں مشاورتی خدمات اور وارڈ سروس بھی مہیا کرتے ہیں۔
3۔ انڈسٹریل اینڈ ریسرچ فارماسسٹ: دوا سازی کی صنعت میں پیشہ ور دواسازوں کو مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک شعبے میں کام کرنے کا موقع ملتا ہے :
1۔ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ 3۔کوالٹی کنٹرول
2۔پروڈکشن 4۔مارکیٹنگ
ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے شعبے میں کام کرنے والے دوا سازوں کو لیبارٹری میں دیگر شعبوں کے سائنس دانوں اور تکنیکی ماہرین کے ساتھ ایک ٹیم کی شکل میں کام کرنا ہوتا ہے۔ یہاں مختلف اجزااور کیمیاوی عناصر پر تحقیق و ترقی (ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ) کے علاوہ تجارتی پیمانے پر دوا سازی (پروڈکشن) تیار شدہ ادویات کے معیار کی جانچ پڑتال (کوالٹی کنٹرول) معیار کی پڑتال کے بعد اس کے مصدقہ اور یقینی ہونے کے عمل (کوالٹی ایشورنس) انجام پاتے ہیں۔ ان میں ہر مرحلے کی تکمیل کے لیے ایک علیحدہ شعبہ ہوتا ہے جنھیں پروڈکشن کوالٹی کنٹرول اور کوالٹی ایشورنس ڈیپارٹمنٹ کہتے ہیں۔
دوا ساز اداروں میں پرانی ادویات کے فارمولوں پر نظرِ ثانی ہوتی رہتی ہے اور انھیں نئی تحقیق کے نتیجے میں مزید موء ثر بنانے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ نئی ادویات اور ترقی شدہ ادویات کی فنی تفصیلات کو تحریری صورت بھی دی جاتی ہے تاکہ متعلقہ سرکاری اداروں کو نئی ادویات اور ترقی شدہ ادویات سے مطلع رکھا جائے۔
دوا ساز اداروں میں تیسرا اہم شعبہ دواؤں کی بازار کاری (مارکیٹنگ) کا ہوتا ہے جہاں دوا سازوں کو میڈیکل ری پری زنٹیٹو یا سیلز پروموشن آفیسر کی حیثیت سے نئی دواؤں کو متعارف کرانا اور دیگر ادویات کی بازار کاری کرنا ہوتی ہے۔
ماحول و حالاتِ کار
دوا سازی کے شعبے میں کام کرنے والے کو ایک طرف اپنے پیشے کے احتیاطی تقاضوں کی بنا پر نہایت منظم طریقے سے کام کرنا ہوتا ہے اور دوسری طرف انھیں اس بات کا بھی خاص اہتمام کرنا پڑتا ہے کہ دیگر جن افراد سے ان کا تعلق ہے، ان تک اپنی بات واضح طریقے سے اس طرح پہنچاسکیں کہ کسی غلط فہمی کا امکان نہ رہے کیوں کہ کسی دوا کی تیاری یا اس کے استعمال کے لیے دی گئی مبہم، نامکمل یا غیرواضح ہدایات سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ دوا درست طریقے پر تیار نہ کی جاسکے یا اس کے استعمال (خوراک کی مقدار، استعمال کے اوقات) میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے، دونوں صورتوں میں، دوا مریض کو فائدہ پہنچانے کے بجائے اس کی زندگی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
دواؤں کی دکانوں میں کام کرنے والے دوا سازوں کو بالعموم ڈاکٹر کے نسخے کے مطابق خریدار کو دو ا فراہم کرنی ہوتی ہے اور اس کے استعمال کے طریقے اور احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ دوا فروشوں کی دکانیں خرید و فروخت کے عام اوقات کے علاوہ رات گئے تک کھلی رہتی ہیں۔ بالعموم بڑے شفا خانوں سے ملحق ادویات کی دکانیں اور روٹیشن سسٹم کی بنیاد پرہر بستی میں رات بھر ادویات کی ایک دکان کھلی رہنے کا نظام رائج ہے اس صورت میں دوا ساز کو رات کے وقت بھی اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے ہوتے ہیں۔
شفا خانوں میں کام کرنے والے دوا سازوں کو دن کے عام اوقات کے علاوہ اندرونی مریضوں کے لیے رات کے اوقات میں بھی کام کرنا ہوتا ہے۔
صنعتی اداروں میں کام کرنے والے پیشہ ور دوا سازوں کو اپنے متعلقہ شعبے(ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پروڈکشن، کوالٹی کنٹرول یا مارکیٹنگ) کی ضرورت کے مطابق ماحول ملتا ہے۔ مارکیٹنگ کے شعبے میں کام کرنے والوں کو دفتر کے باہر کام کرنا ہوتا ہے۔ اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے بعض اوقات شہر سے باہر بھی سفر کرنا پڑتا ہے۔
تنخواہیں
بی فارمیسی کے سند یافتہ ایک نئے پیشہ ور دوا ساز کو سرکاری شعبے میں گریڈ 16 کی ملازمت مل سکتی ہے (ابتدائی ماہانہ تنخواہ اندازاً 2500 اور 3000 روپے)۔ اسپتالوں میں، ہاسپٹل فارماسسٹ اور محکمہء صحت میں ڈرگ انسپکٹر کے عہدوں پر پیشہ ور دوا ساز ہی کام کرتے ہیں۔
نجی شعبے میں شفا خانوں اور دوا ساز اداروں میں بی فارم کامیاب دوا سازوں کا ریسرچ کیمسٹ اور سیلز پروموشن آفیسرکے عہدوں پرتقرر کیا جاتا ہے۔ انھیں پروڈکشن اور ایڈمنسٹریشن کے شعبوں میں بھی ذمہ داریاں تفویض کی جاسکتی ہیں۔ ابتدائی تنخواہ کا تعین بالعموم ذاتی صلاحیت اور کارکردگی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اندازاً نو فارغ التحصیل پیشہ ور دوا سازوں کو دو ہزار سے تین ہزار روپے تک دیے جاتے ہیں۔
مواقع
پاکستان کی سات جامعات سے ہر سال اوسطاً چھ سو نوجوان بی فارمیسی کی سند لے کر فارغ ہوتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ اس وقت ملک میں2 ہزار رجسٹرڈ فارماسسٹ موجود ہیں جن میں سے گیارہ سو فارماسسٹ صرف کراچی میں ہیں۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملک میں633 اسپتال 3386 ڈسپنسریاں ماں اوربچے کی صحت کے 7 78 مراکز، 319 دیہی صحت مراکز 2 ہزار366 بنیادی صحت مراکز اور تپ دق کے 96شفا خانے ہیں نجی شعبے میں قائم شفا خانوں اور دواخانوں کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ لیکن گزشتہ دس برس کے اندر ملک کے بڑے شہروں میں نجی شفا خانے اور دو ا خانے (کلینکس) بڑے پیمانے پر قائم ہوئے ہیں۔ ملک کے اندر رجسٹرڈ فارمیسی کی دوکانوں کی تعداد بھی دستیاب نہیں ہے۔ لیکن مروّجہ طریقہء کار کے مطابق بالعموم ادویات کی دکانوں پر غیر سندیافتہ دوا ساز کام کرتے ہیں جب کہ سندیافتہ دوا ساز کی سند بہ طور حوالہ استعمال کی جاتی ہے۔ ڈرگ اور فارمیسی ایکٹ پر مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے سندیافتہ دوا سازوں پر کمیونٹی فارمیسی کے شعبے میں روزگار کے دروازے بند ہیں اگر قانون پر صحیح طرح عمل در آمد کیا جائے تو روزگار کے متعدد مواقع میسر آسکتے ہیں۔
انڈسٹریل فارمیسی کے شعبے میں پاکستان میں اس وقت 225 دوا ساز ادارے کام کر رہے ہیں جن میں بین الاقوامی شہرت کی حامل 25 غیر ملکی کمپنیاں بھی شامل ہیں ان دوا ساز اداروں میں ہر سال نئے فارغ التحصیل ہونے والے پیشہ ور دوا سازوں کے لیے روزگار کے مواقع نکلتے ہیں۔
نیشنل ڈرگ پالیسی مرتب ہوجائے اور اس پر عمل درآمد ہو تو دوا سازی کی صنعت مزید ترقی کرے گی اور پیشہ ور دوا سازوں کو بہتر روزگار کے مواقع میسر آسکیں گے۔
رجسٹریشن
پاکستان فارمیسی ایکٹ مجریہ 1967ء کے تحت ہر سند یافتہ پیشہ ور دوا ساز کو اپنا اندراج (رجسٹریشن) پاکستان فارمیسی کونسل میں کرانا لازمی ہے۔ یہ اندراج صوبائی فارمیسی کونسل کے ذریعے ہوتا ہے۔ رجسٹریشن کے لیے ضروری ہے کہ سند یافتہ دوا ساز (فارماسسٹ) نے دوا سازی کے صنعتی ادارے یا تسلیم شدہ اسپتال کے شعبہ فارمیسی میں دو سو گھنٹے کی عملی تربیت مکمل کی ہو۔
ذاتی کاروبار کے مواقع
سندیافتہ پیشہ ور دوا ساز اگر چاہیں تو ادویات کی دکان (ڈرگ اسٹور) قائم کرسکتے ہیں۔ جگہ کی قیمت/ کرائے کے علاوہ ادویات کی خریداری اور اسٹور کے قیام کے اخراجات کا اندازہ ایک لاکھ روپے ہے۔ چوں کہ دوا ساز ادارے اپنی مصنوعات پر اچھا کمیشن دیتے ہیں اس لیے اس شعبے میں کامیابی اور منافع کے امکانات بھی بہتر ہوتے ہیں۔
علم الادویات کے بارے میں مزید معلومات کے لیے مندرجہ ذیل اداروں سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان فارماسسٹ ایسوسی ایشن، فارما کیرنز،
فیکلٹی آف فارمیسی،اولڈ کیمپس، 8۔ادریس چیمبر
پنجاب یونی ورسٹی۔لاہور تالپور روڈ،آف چندریگرروڈ، کراچی
پاکستان فارمیسی کونسل،
41۔پاکستان سکریٹریٹ،
شاہراہِ عراق، کراچی