بلاگ
اعلٰی تعلیم کیسے حاصل کی جائے ؟
بیرونِ ملک تعلیم، گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کی نوجوان نسل کا پسندیدہ خواب بن چکی ہے۔ طلبہ و طالبات تعلیم کی ثانوی سطح تک پہنچنے کے بعد بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے امکانات پر غور کرنا شروع کردیتے ہیں۔تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرونِ ملک جانے کے رجحان کی بہ دولت ہی گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں غیر ملکی تعلیمی اداروں کے نمائندوں نے دورے کرنے شروع کیے ہیں، بین الاقوامی تعلیمی نمائشوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور غیر ملکی جامعات اورکالجوں سے منسلک ایسے مقامی تعلیمی کیمپس قائم ہونے لگے ہیں جہاں مختلف مضامین میں انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کورس کرائے جاتے ہیں اورکامیابی پر غیر ملکی تعلیمی اداروں کی جانب سے سند جاری کی جاتی ہے۔
بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے فوائد بے شمار ہیں۔ وہاں تعلیمی سال وقت پرشروع اور ختم ہوتا ہے۔ تعلیمی معیار اچھا ہوتا ہے۔ حاصل ہونے والی اسناد دنیا بھر میں تسلیم کی جاتی ہیں۔ ایک اضافی فائدہ یہ ہے کہ طالب علم اپنی پسند کے شعبے میں داخلہ حاصل کرسکتا ہے۔ پاکستان میں پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بہت محدود ہیں اور میڈیکل، انجینئرنگ یا بزنس ایڈمنسٹریشن جیسے شعبوں میں وہی طالب علم داخلہ لے سکتے ہیں جو بے حد شان دار نمبر حاصل کرچکے ہوں۔ ا س کے برعکس بیرونِ ملک تعلیم کے دوران انھی شعبوں میں پچاس فیصد نمبرحاصل کرنے والا طالب علم بھی داخلہ لے سکتا ہے۔ ان تعلیمی اداروں نے طالب علم کی لیاقت اور ذہانت کوبڑھانے اورجانچنے کا ایسا دوہرا نظام وضع کرلیا ہے جس میں صرف وہی طالب علم کامیابی حاصل کرپاتے ہیں جو لگن سے پڑھتے ہیں اورہر سمسٹر میں پاس ہوتے جاتے ہیں۔
تعلیم کے لیے بیرونِ ملک کسے جانا چاہیے ؟
بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کا تصور اتنا دل کش ہے کہ ہر طالب علم کے دل میں یہ تصور خواب بن کر دھڑکنے لگتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر طالب علم کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرونِ ملک نہیں جانا چاہیے۔ صر ف انھی طالب علموں کو اس جانب مائل ہوناچاہیے جن کا تعلیمی ریکارڈ اچھا ہو اور جو کسی مضمون میں اسپیشلائزیشن کرنا چاہتے ہوںیا جو پروفیشنل تعلیمی اداروں میں نشستیں محدود ہونے کے باعث تعلیم سے محروم ہورہے ہوں۔ میڈیکل، انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن اورایسے ہی دیگر شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مندوں کو غیر ملکیتعلیمی اداروں کا رخ کرنا چاہیے۔
بیرونِ ملک ہر سطح کی تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن مناسب یہ ہے کہ پاکستان میں انٹرمیڈیٹ یا اے لیول کامیاب کرنے کے بعدبیرونِ ملک تعلیم کے لیے جایا جائے۔ کالج میں دو سال گزارنے کے بعد طلبہ کسی نہ کسی حد تک زندگی کے معاملات کو سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں اور بیرونِ ملک داخلہ حاصل کرنے کے لیے کم و بیش ایک سال کے عرصے میں انھیں جو جدوجہد کرنی پڑتی ہے اس سے انھیں اچھی تعلیم کی قدر و قیمت کا اندازہہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں و ہ باہر جاکر سنجیدگی سے تعلیم پر توجہ دے سکتے ہیں۔
لوگ عموماً گریجویشن اور ماسٹرز کی تعلیم کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں۔ یہ بات ہر تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی کہ اکثر صورتوں میں ڈگری کی سطح کی تعلیم کے دوران طلبہ کووظائف( اسکالر شپ) مل سکتے ہیں۔ جنھیں وظائف نہ ملیں وہ اسسٹنٹ شپ حاصل کرسکتے ہیں بعض امیدواروں کو ان کے تعلیمی ریکارڈ کی بنیاد پر داخلے کے وقت بھی وظائف مل جاتے ہیں۔
کس ملک میں تعلیم حاصل کی جائے ؟
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کس ملک کا رخ کیا جائے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر طالب علم اور اس کے سرپرست کو پریشان رکھتا ہے۔ پہلے صرف برطانیہ اور امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دی جاتی تھی، لیکن اب طالب علموں نے یورپی ممالک، آسٹریلیا، مشرقِ بعید اور وسطِ ایشیا کی ریاستوں کا رخ کرنا بھی شروع کردیا۔ ان تمام ممالک میں سائنس، آرٹس اورکامرس کے مختلف شعبوں میں انڈر گریجویٹ اورپوسٹ گریجویٹ سطح کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔ امریکا ، برطانیہ اوربعض یورپی ممالک میں اپنی پسند کے شعبے میں داخلہ حاصل کرنا اس اعتبار سے تھوڑا سا مشکل کام ہوتا ہے کہ یہاں آپ کوانگریزی زبان میں استعداد ثابت کرنے کے لیے مخصوص امتحانات میں کامیابی بھی حاصل کرنی پڑتی ہے۔ ساتھ ہی کسی خوش حال سرپرست کی جانب سے یہ ضمانت درکار ہوتی ہے کہ وہ تعلیمی اخراجات بہر صورت برداشت کرے گا۔ ان ممالک کی مصروف جامعات اورکالجوں میں غیر ملکی طلبہ کےلیے محدود تعداد میں نشستیں مخصوص ہوتی ہیں، لہٰذا داخلے کے لیے مقابلہ خاصا سخت رہتا ہے۔
حصولِ علم کے لیے آپ کہیں بھی جاسکتے ہیں۔ امریکا اوریورپ کے علاوہ اچھے تعلیمی ادارے مشرق بعید کے ممالک ( فلپائن، تھائی لینڈ وغیرہ) میں بھی ہیں اور وسطِ ایشیا کی ریاستوں، قبرص اور روس میں بھی، لیکن داخلے کے لیے درس گاہ کا انتخاب کرتے وقت یہ تصدیق ضرور کرنا چاہیے کہ متعلقہ درس گاہ اپنے ملک اور اپنے علاقے کے پیشہ ورانہ اداروں سے تسلیم شدہ ہے یا نہیں؟مثلاً اگر آپ طب (میڈیکل) کی تعلیم کے لیے فلپائن کی کسی یونی ورسٹی میں داخلہ لے رہے ہیں تو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے یہ تصدیق کرلیجیے کہ پی ایم ڈی سی فلپائن کی اس یونی ورسٹی کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟ یہ تصدیق متعلقہ ملک کے سفارت خانے ، ہائی کمیشن یا متعلقہ درس گاہ کے ڈائریکٹر سے بھی کی جاسکتی ہے۔
بیرونِ ملک تعلیم کے فوائد
بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے بعد طالب علم ایک غیر ملکی تعلیمی سند کے ساتھ جب وطن واپس آتا ہے تو وہ کئی اعتبار سے پاکستان میں تعلیم پانے والے اپنے ہی جیسے طالب علموں سے خود کو برتر محسوس کرتا ہے۔ اس کی اہم ترین وجہ وہ معیاری تعلیم ہوتی ہے جس سے وہ مستفید ہوچکا ہوتا ہے۔ علم اس کا زیور ہی نہیں،ہتھیار بن جاتا ہے جس کی مدد سے وہ کارزارِ حیات میں کامیابیاں حاصل کرسکتا ہے۔ ملکی اداروں میں بیرونی تعلیمی سند رکھنے والے کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ وہ دوسروں سے کہیں بہتر تنخواہ اور مراعات کے لیے کامیاب سودے بازی کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ خود کوئی کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے تو وہ کاروبار اورانتظام کے تمام پہلوؤں اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
غیر ملکی تعلیم ہر اعتبار سے فائدہ کا سودا ہے۔ تاہم بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے آرزو مند طالب علموں اور ان کے سرپرستوں کو اچھی طرح دیکھ بھال کر قدم اٹھانے کا فیصلہ کرناچاہیے۔ پاکستان کے معیار کے اعتبار سے غیر ملکی تعلیم بہرطور بہت مہنگی پڑتی ہے۔ یہ لاکھوں کا معاملہ ہے، اوراخراجات سے قطع نظر بعض سرپرستوں کے لیے زیادہ پریشان کن مرحلہ وہ ہوتا ہے جب دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کا بیٹا انھیں مطلع کرتا ہے کہ وہ اب مستقل طو رپر مغربی دنیا میں ہی رہنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
پاکستان میں بہت سے ادارے، بیرونِ ملک تعلیم کے سلسلے میں ضروری مشاورت فراہم کرتے ہیں۔ یہ ادارے اس ضمن میں نہ صرف معلومات فراہم کرتے ہیں بلکہ ساتھ ہی اپنی خدمات بھی پیش کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان کی مشاورتی خدمات بہت زیادہ مہنگی نہیں ہوتیں۔
اخراجات
بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرناکتنا مہنگا پڑتا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جس کے کئی جواب ہوسکتے ہیں۔ اوّلاً اس کا انحصار طالب علم کے اپنے طرزِ زندگی اور مزاج پر ہوتا ہے۔ بہت سے طالب علم تعلیم پر توجہ دیتے ہیں، سادگی پسند ہوتے ہیں اور فضول خرچی سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ طالب علم تعلیم کے بجائے سیاحت یا غیر تعلیمی سرگرمیوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ اخراجات کا انحصار انھی باتوں پر ہوتا ہے۔
مغربی دنیا میں تعلیمی اخراجات صرف وہی ہوتے ہیں جو آپ کسی جامعہ یا کالج میں داخلے کے لیے دیتے ہیں۔ بہت سی جامعات اورکالج، فیس، کے اس پیکج میں ہی ہاسٹل میں قیام اور طعام کے اخراجات شامل کردیتے ہیں تاکہ طالب علم کو داخلہ لینے کے بعد مزید اخراجات کی صورت میں پریشان نہ ہونا پڑے۔ تاہم طعام و قیام کی یہ پیش کش اختیاری ہوتی ہے۔ مسلم طلبہ ایسی غذا کے لیے جو یقینی طور پر حلال ہو،اپنے طعام کا علیحدہ بندوبست پسند کرتے ہیں۔ بیرونِ ملک تعلیمی اداروں میں داخلے دلانے کے لیے مشاورتی فرائض انجام دینے والے بعض اداروں کے اندازے کے مطابق مغربی دنیا میں ایک طالب علم کو متوسط طرزِ زندگی کے لیے داخلے کے علاوہ لگ بھاگ 300 سے 500 ڈالر ماہانہ درکا رہوتے ہیں۔ کورس کے اخراجات ادا کرنے اورداخلہ حاصل کرنے کے بعدآپ اس تعلیمی ادارے میں لائبریری ، سیمینار رومز ، کیفے ٹیریا میں سستے کھانے اورایسی ہی دیگر سہولیات کے ازخود حق دار ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں عمومی نوعیت کی بیماریوں کے لیے علاج کی سہولت بھی دستیاب ہوتی ہے۔
ذیل کے گوشوارے سے مختلف ممالک علاقوں میں تعلیمی اخراجات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ اخرجات حتمی نہیں ہیں، ان کے لگ بھگ اخراجات پیش آسکتے ہیں۔
ملک /علاقہ
تعلیمی اخراجات (سالانہ)
رہائشی اخراجات(ماہانہ)
امریکا
6000 ڈالر سے زیادہ
300 تا400 ڈالر
برطانیہ ویورپی ممالک
400 پاؤنڈ سے زیادہ
300تا 400ڈالر
مشرقِ بعید کے ممالک
1500 ڈالر
300تا 400ڈالر
روس اور وسطِ ایشیا کی ریاستیں
3500 ڈالر
150تا 100ڈالر
پاکستان سے جو طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرونِ ملک جاتے ہیں ان میں طالبات کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے والوں میں طالبات کی تعداد دو سے تین فیصد ہوتی ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ہماری معاشرتی اقدارہیں جن میں کسی لڑکی کا اپنے گھر سے ہزاروں میل دور تعلیم حاصل کرنے کے لیے تنہا جانا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ تاہم بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کووہاں ایک محفوظ اور بھرپور تعلیمی ماحول ملتا ہے جو بعد میں ایک شان دار کیریئر کا ضامن بن سکتا ہے۔
امریکا میں تعلیم
طالب علموں کے لیے امریکا ہمیشہ سے خوابوں کی سرزمین رہی ہے۔ بیش تر طلبہ امریکی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ مگر امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہاں کے تعلیمی اداروں میں داخلے کے طریقہ ء کار سے آگہی حاصل کی جائے۔ بہت سے طلبہ و طالبات درست طریقہء کاراختیار نہ کرنے کے سبب اہل ہونے کے باوجود امریکی تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل نہیں کرپاتے۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی منصوبہ بندی میں پہلا قدم معروف امریکی یونی ورسٹیوں سے خط و کتابت کرنا ہے۔ صرف ان یونی ورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو خط لکھیے جہاںآپ کی پسند کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔ اس ضمن میں ابتدائی معلومات کے لیے امریکن سینٹر لائبریری سے رجوع کیجیے۔ جہاں مطلوبہ کیٹلاگ موجود ہیں۔ آپ ان میں سے امریکی جامعات کے پتوں کی فہرست حاصل کرسکتے ہیں۔
پتے حاصل کرنے کے بعد کم ازکم دس یا پندرہ یونی ورسٹیوں کو خطوط لکھیے۔ یہ خطوط ہر یونی ورسٹی کے گریجویٹ افسر کے نام ارسال کیے جانے چاہییں۔ تاہم اگرآپ کوئی انڈر گریجویٹ کورس کرنا چاہتے ہیں تو خط انڈر گریجویٹ افسرکے نام بھیجیے۔اپنے پہلے ہی خط میں واضح طور پر بتادیجیے کہ آپ کس شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔ یہ بھی دریافت کرلیجیے کہ یونی ورسٹی طلبہ کو مالی امداد فراہم کرتی ہے یا نہیں۔ اس امر کا بھی ذکرکردیجیے کہ آپ انگریزی زبان پڑھ ، بول او رسمجھ سکتے ہیں۔ اپنے تعلیمی پس منظر اور دیگر امور کی تفصیلات بھی اس پہلے خط میں ضرورشامل کیجیے۔
اگر آپ یونی ورسٹی کی جانب سے مالی امداد کی فراہمی کے معاملے میں دلچسپی کا اظہارنہیں کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ یونی ورسٹی والے آپ کودرخواست فارم کے ہمراہ مالی امداد کے فارم کے بجائے اسپانسر شپ فارم بھیج دیں۔ اسپانسر شپ فارم پرکسی ایسے شخص کو دستخط کرنے ہوتے ہیں جو مالی طو ر پر خاصا مستحکم ہو۔ اوردستخط کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کا وعدہ کررہا ہے۔
امریکی جامعات میں تعلیم حاصل کرنا ایک مہنگا کام ہے۔ ایک عام امریکی یونی ورسٹی میں ایک سمسٹر کی فیس تقریباً دو ہزار چھ سو ڈالر ہے۔ معروف جامعات مثلاً کولمبیا یا کیلی فورنیا یونی ورسٹی میں ایک سمسٹر کی فیس چار ہزار سے پانچ ہزار ڈالر پڑتی ہے۔
مالی امداد کا پروگرام
اگر آپ اتنے بھاری اخراجات کے متحمل نہیں ہوسکتے تو امریکی تعلیمی نظام میں آپ کے لیے ’’مالی امداد کے پروگرام‘‘ نامی ایک انوکھا موقع موجود ہے۔ یہ پروگرام ان طلبہ کے لیے ہے جو باصلاحیت ہیں مگربھاری فیس نہیں دے سکتے۔ مالی امداد کا پروگرام، بیش تر امریکی جامعات میں موجود ہے اورمختلف جامعات میں وظیفے کی شرح مختلف ہوتی ہے۔
جب آپ امریکن سینٹرجائیں تو وہاں سے ٹوئفل(Toeffel) فارم بھی حاصل کریں۔ اگرآپ کسی گریجویٹ کورس میں داخلہ لے رہے ہیں تو جی آر ایس ٹیسٹ کا فارم بھی بھریں جو عموماً سوشل سائنسز میں داخلے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ ٹوئفل کا ٹیسٹ دراصل آپ کی انگریزی کی استعداد جانچنے کے لیے لیا جاتا ہے۔ بالعموم اس ٹیسٹ میں کم از کم 550 نمبر حاصل کرنے ضروری ہوتے ہیں لیکن اگر آپ مالی امداد بھی حاصل کرناچاہتے ہیں توآپ کوٹوئفل میں کم از کم 570 نمبر اور جی آر ای ٹیسٹ میں کم از کم 500 نمبرحاصل کرنے ہوں گے۔
ٹوئفل میں کامیابی حاصل کرنی ہو تو ٹی وی کے انگریزی پروگرام دیکھیے اور مختلف الفاظ کا تلفظ سیکھتے رہیے۔ اسی طرح انگریزی گرامر کی کتابوں کے ساتھ ساتھ انگریزی اخبارات کا بھی خوب مطالعہ کیجیے۔ امریکن سینٹر میں نمونے کے پیپر اور کتاب دستیاب ہوتی ہے جو ٹوئفل میں مدد دے سکتی ہے۔
جب آپ کو کسی امریکن یونی ورسٹی سے جوابی خط موصول ہوگا تواس کے ساتھ داخلہ فارم لازماً ہوگا۔ اصل فارم کو پر کرنے کے بجائے پہلے اس کی فوٹوکاپی کرایئے اور پھر اس فوٹو کاپی کو پرکیجیے تاکہ اصل فارم پر کرتے وقت کوئی غلطی نہ ہو۔ یہ فارم بہت سادہ سے ہوتے ہیں اور انھیں پر کرنا مشکل کام نہیں ہوتا۔ ہر فارم میں یہ سوال ضرور ہوتا ہے کہ آپ اس مخصوص یونی ورسٹی یا اس مخصوص شعبے میں کیوں تعلیم حاصل کرناچاہتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کے مستقبل کے ارادے کیا ہیں؟ ان دونوں سوالوں کوبہت تکنیکی قسم کا سوال تصور کیا جاتا ہے اوران کا جواب بہت احتیاط سے دینا چاہیے کیوں کہ بعض اوقات آپ کے داخلے اوربالخصوص آپ کی مالی امداد کی فراہمی کے فیصلے کاانحصار آپ کے جواب پر ہی ہوتا ہے۔
مالی امداد کی فراہمی کے لیے بعض اوقات آپ کے اساتذہ کی تحریری سفارش بھی درکار ہوتی ہے۔ اس لیے داخلہ فارم کے ساتھ خصوصی فارم منسلکہوتے ہیں۔ تاہم بعض یونی ورسٹیاں سادہ کاغذ پر اساتذہ کی رائے طلب کرتی ہیں۔
درخواست فارم کے ساتھ ڈگریاں اور سرٹیفکیٹ بھی بھیجنے ہوتے ہیں۔ تاہم امریکی یونی ورسٹیاں آپ کی دستاویزات کی تصدیق شدہ نقول قبول کرلیتی ہیں۔ اسی طرح درخواست فارم کے ساتھ ٹوئفل اور جی آر ای امتحانا ت کے نتائج بھی بھیجنے پڑتے ہیں۔ تمام یونی ورسٹیاں آئی ٹوئینٹی کے لیے ایکمناسب رقم طلب کرتی ہیں اوریہ فیس ناقابلِ واپسی ہوتی ہے۔
امریکی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کے آرزومند نوجوانوں کو جولائی اور ستمبر کے مہینوں میں جامعات سے خط و کتابت کا آغاز کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جامعات غیر ملکی طلبہ کے داخلے ہر سال کے آغاز پر جنوری اور فروری میں کرتی ہیں۔ غیر ملکی طلبہ کے لیے مالی امداد کی پیش کش صرف موسم خزاں والے سمسٹر میں یعنی ستمبر سے شروع ہونے والے سمسٹر میں کی جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ خط و کتابت کا سلسلہ جلد ازجلد شروع کردیں۔ اگر آئندہ سال والے سمسٹر میں داخلہ لیناچاہتے ہیں تواس سال ستمبر سے خط و کتابت کا آغاز کردیں۔
برطانیہ میں تعلیم
برطانوی تعلیمی اداروں میں داخلے کے خواہش مندوں کوسب سے پہلے تعلیم کی صحیح سطح کا انتخاب کرنا چاہیے۔ کسی بھی فرسٹ ڈگری کورس میں داخلے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ آپ نے جی سی ای یا جی سی ایس کے امتحانات میں کم از کم پانچ کامیابیاں حاصل کی ہوں، جن میں سے کم از کم دو کامیابیاں اے لیول کی ہوں۔ تاہم بی ٹی ای سی کے کسی اعلیٰ ڈپلوما کورس میں داخلے کے لیے جی سی ای میں صرف ایک اے لیول کی کامیابی یا بی ای سی نیشنل ڈپلوما لیول میں صرف ایک کامیابی کافی ہے۔ جو لوگ محسوس کرتے ہوں کہ وہ یہ شرائط پوری نہیں کرسکتے ان کے لیے ایسے کورس موجود ہیں جن میں شرکت کرکے وہ اپنی استعداد بڑھا سکیں۔ حال ہی میں ایک ایڈوانسڈ سپلیمنٹری (اے ایس) لیول کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ دو اے ایس لیول کی کامیابیوں کوایک اے لیول کی کامیابی کے برابرسمجھا جاتا ہے۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کو جی سی ای، اے لیول کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ بی اے یا گریجویشن کی کوئی ڈگری آپ کو برطانیہ میں کسی فرسٹ ڈگری کورس سے صرف جزوی استثنیٰ دلاسکتی ہے۔ پوسٹ گریجویٹ کورسزمیں داخلہ کبھی آسانی سے اور کبھی مشکل سے ملتا ہے۔ اس کا انحصار آپ کی ڈگری یا تعلیمی قابلیت پر ہوتا ہے۔ اگر آپ ایم بی ا ے کرنا چاہتے ہیں یا بزنس یا مینجمنٹ میں کوئی ماسٹرز ڈگری لینا چاہتے ہیں تو آپ کو گریجویٹ مینجمنٹ داخلہ ٹیسٹ (جی ایم اے ٹی) دیناہوگا۔ تحقیق کے لیے ماسٹرز ڈگری میں داخلہ لینے والے اپنے تحقیقی کام کو پی ایچ ڈی کی سطح تک جاری رکھ سکتے ہیں۔
پوسٹ گریجویٹ کورس میں داخلے کو آسان بنانے کے لیے مختلف کورس الگ موجود ہیں۔ یہ عام طور پر ڈپلومہ کورس کی شکل میں ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد ان لوگوں کو مدد دینا ہے جوایک مضمون میں گریجویشن کرنے کے بعد کسی دوسرے مضمون میں ماسٹرز ڈگری لینا چاہتے ہیں یا جو باقاعدہ تعلیمی قابلیت رکھنے کے بجائے عملی تجربہ رکھتے ہیں۔
داخلوں کے لیے درخواست کب بھیجی جائے ؟
اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جلد ازجلد، زیادہ تر شعبوں میں تعلیمی سال ستمبر یا اکتوبر سے شروع ہوتے ہیں تاہم بعض کورس ایسے بھی ہیں جن کا آغاز جنوری سے ہوتا ہے۔ آپ کے داخلے کاانحصاری اس بات پر ہے کہ آپ کے پسندیدہ شعبے میں خالی نشستیں ہیں یا نہیں۔
ستمبر سے شروع ہونے والے کورس میں داخلے کے لیے درخواستیں ایک سال قبل دسمبر میں ارسال کی جانی چاہییں مثلاً اگر آپ اگلے ستمبر کے کسی کورس میں داخلہ لینا چاہتے ہیں تواپنی درخواستیں اس سال دسمبر میں بھیج دیں۔ آکسفورڈ اور کیمبرج میں درخواستیں وصول کرنے کی آخری تاریخ 15 اکتوبر ہوتی ہے۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اے لیول جیسے امتحانات دینے سے قبل ہی درخواستیں ارسال کردی جائیں۔ اگرچہ دسمبر کے بعد اگلے ستمبر تک پہنچنے والی درخواستوں پر بھی غور کیا جاتا ہے اورداخلے بھی دیے جاتے ہیں،مگرمقبول شعبوں میں مثلاً میڈیسن وغیرہ میں آپکے داخلے کے امکانات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے حد کم ہو جاتے ہیں۔
برٹش کونسل میں موجود تعلیمی مشاورتی سروس آپ کو تمام برطانوی تعلیمی اداروں میں داخلہ بھیجنے کے طریقہء کار کے بارے میں مشورہ دیتی ہے اور آپ کی درخواستیں تیار کرانے میں بھی مدد دیتی ہے۔ برٹش کونسل کے پاس درخواست فارم بھی ہوتے ہیں جو بیش تر برطانوی کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں قبول کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس یونی ورسٹی کالج داخلہ سروس(یو سی اے ایس) فارم بھی ملتے ہیں جن پر تمام انڈر گریجویٹکورسزکے لیے درخواستیں دی جاسکتی ہیں۔
’’یو سی اے ایس ‘‘ ایک مرکزی ادارہ ہے جوانڈر گریجویٹ ڈگریوں کے علاوہ ’’اعلیٰ قومی ڈپلوما‘‘ (ایچ این ڈی) اور اعلیٰ تعلیمی ڈپلوما ( ڈی ایچ ای) کے لیے تمام یونی ورسٹیوں اوربیش ترکالجوں کے لیے درخواستیں قبول کرتا ہے۔
درخواستیں یو سی اے ایس کے درخواست فارم پر تیارکی جاتی ہیں جس میں آپ کو آٹھ مختلف کورسز میں سے اپنی مرضی کا کورس منتخب کرنا ہوتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ جلد ازجلد درخواست ارسال کریں تاکہ آپ کوآپ کی مرضی کا کورس مل سکے۔ ضروری نہیں کہ آپ اپنے اے لیول یا گریجویشن کے امتحانات کے نتائج کا انتظار کرتے رہیں۔ 85 فیصد طلبہ کو ’’ مشروط‘‘ داخلے دیے جاتے ہیں جواس وقت ہی یقینی داخلے بنتے ہیں جب اگلے سال برطانوی یونی ورسٹی یا کالج میں داخلے سے قبل سابقہ امتحان کے نتائج داخل کیے جائیں۔
برطانیہ کے تمام تعلیمی ادارے انگریزی زبان میں مناسب مہارت کو داخلے کی بنیادی شرط قرار دیتے ہیں۔ اس کے لیے برٹش کونسل انگریزی زبان کا ایک ٹیسٹ لیتی ہے جسے’’آئی ای ایل ٹی ایس‘‘کہا جاتا ہے۔ عام طور پر اس ٹیسٹ میں 5.5 سے 6.6 اور ٹوئفل میں 550 نمبر حاصل کرنے ضروری ہوتے ہیں جس کا دارومدار تعلیمی ادارے کے اپنے طے شدہ معیار پر ہے۔
تعلیمی او رہائشی اخراجات
امریکا : امریکا میں تعلیمی اخراجات چھ ہزار ڈالر سے بارہ ہزار ڈالر سالانہ تک ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جو صرف پڑھائی پر صرف ہوتی ہے۔ اس رقم سے آپ دو سمسٹر تک تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ ساتھ ہی گرمیوں کا اضافی سمسٹر بھی اٹینڈ کرسکتے ہیں۔ قیام و طعام کے اخراجات بھی چھ ہزار سے دس ہزار ڈالر تک ہوسکتے ہیں۔ رینکنگ کے اعتبار سے ایک اوسط درجے کی یونی ورسٹی میں ایک طالب علم کے کل اخراجات بارہ ہزارڈالر سالانہ سے پندرہ ہزارڈالر تک ہوسکتے ہیں۔ تاہم مشہور یونی ورسٹیوں میں تعلیم اورقیام و طعام کی نسبتاً مہنگی سہولتوں کے ساتھ سا ل بھر کے اخراجات بیس ہزار ڈالرتک پہنچ سکتے ہیں۔
برطانیہ :برطانیہ میں اوسط ٹیوشن فیس چھ ہزار سے آٹھ ہزار پونڈ تک ہوتی ہے۔ اوسط درجے کی یونی ورسٹی یا ادارے میں قیام و طعام کے اخراجات کے ساتھ سالانہ اخراجات بارہ ہزارپونڈ تک ہوسکتے ہیں اورمہنگی سہولیات کے ساتھ یہ اخراجات پندرہ ہزار پونڈ سالانہ تک پہنچ سکتے ہیں۔
دیگر یورپی ممالک : فرانس ، جرمنی بیلجئم وغیرہ میں اوسط سالانہ ٹیوشن فیس نو ہزار امریکی ڈالر سے بارہ ہزارڈالر تک ہوتی ہے۔ یہاں اچھی یونی ورسٹیوں میں انگریزی زبان کی تعلیم کا مکمل بندوبست ہوتا ہے۔ قیام و طعام کے اخراجات کے ساتھ سالانہ اخراجات بیس ہزار ڈالر تک ہوسکتے ہیں۔
آسٹریلیا : آسٹریلوی جامعات اور تعلیمی اداروں میں سال بھر کے تعلیمی اخراجات چھ ہزار ڈالر سے دس ہزار ڈالر تک ہوتے ہیں۔ تاہم قیام و طعام کےاخراجات کے ساتھ مجموعی سالانہ اخراجات چودہ ہزار ڈالر سے بیس ہزار ڈالر تک ہوسکتے ہیں۔
قبرص : یہاں تعلیمی اخراجات نسبتاً کم ہیں۔ سال بھر کی ٹیوشن فیس پانچ ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہوتی ہے اور قیام و طعام کے اخراجات کے ساتھ سال بھر کے اخراجات نو ہزار سے دس ہزار ڈالر تک ہوجاتے ہیں۔
روس : یہاں غالباً سب سے سستی تعلیم دستیاب ہے۔ سال بھر کے تعلیمی اخراجات ڈیڑھ ہزار سے تین ہزار ڈالر تک ہوتے ہیں اور قیام و طعام کے اخراجات ملا کر سال بھر کے اخراجات تین سے پانچ ہزارڈالر تک ہوتے ہیں۔
لیٹویا۔ لتھوانیا : یہاں پر بھی تعلیمی اخراجات کم ہیں اور تمام شعبوں میں انگریزی زبان کی تعلیمی سہولت دستیاب ہے۔ سال بھر کی ٹیوشن فیس تین ہزار سےچھ ہزار ڈالر تک ہوتی ہے اورقیام و طعام کے اخراجات ملا کر سالانہ اخراجات پانچ ہزار سے نو ہزار ڈالر تک ہوتے ہیں۔
بیرون ملک مسائل و مشکلات
غیر ملکی طرز معاشرت اور ثقافت، بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کے لیے بالکل مختلف تجربہ ثابت ہوتی ہے۔ علیحدہ معاشرت،علیحدہ زبان، علیحدہ مذہب اور علیحدہ خدوخال ایک طالب علم کو کسی بھی نئے معاشرے میں اجنبی بنا دیتے ہیں۔ طرزمعاشرت ہی نہیں ، اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا، غرض ہر چیز ، کلچرل شاک کا حصہ ہوتی ہے۔ یہ شاک اپنے ہم جماعتوں سے آگے نکلنے کی آرزو رکھنے والے طالب علم کے لیے گویا ایک ’’سیٹ بیک‘‘ ہوتا ہے اور اس کے نقصانات سے بچنے کے لیے اسے حصول علم کے شعبے میں اور زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہی صورتِ حال اس وقت بھی درپیش ہوتی ہے جب دورانِ تعلیم، طالب علم کے سرپرست یا خود طالب علم کا ہاتھ ذرا تنگ ہوجائے۔ غیر ملکی تعلیمی اداروں کے قوانین، طالب علم کو کوئی منفعت بخش کامیاب ملازمت کرنے سے روکتے ہیں۔ یہ وہ پابندی ہے جس سے اس غیر ملکی تعلیمی ادارے کے مقامی طالب علم مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض ترقی یافتہ مغربی ممالک میں پسماندہ یا ترقی پذیر ممالک کے طالب علموں کے لیے جو نسلی امتیازی رویہ پایا جاتا ہے وہ بھی طالب علم کو پوری آزادی کے ساتھ تعلیم کے شعبے میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہکرنے سے روکتا ہے۔
چند اہم نکات
پاکستان میں پیشہ ور ماہرین کے تقریباً پندرہ ادارے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند امیدواروں کو ضروری معلومات فراہم کرتے ہیں اور داخلے کے حصول کی کارروائی میں مدد دیتے ہیں۔ ان کی اوسط فیس تین ہزار سے چارہزار روپے ہے۔ یہ ادارے کراچی، لاہور اوراسلام آباد ،راول پنڈی میں کام کرتے ہیں۔ ان اداروں کے ماہرین کے مطابق بیرونِ ملک تعلیم کی خواہش رکھنے والوں کودرجِ ذیل باتوں پر توجہ دینی چاہیے :
-1 اس مضمون کا تعین کیجیے جس میں آپ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سو میں سے 98 نوجوان جو باہر جانا چاہتے ہیں وہ اس بارے میں واضح سوچ نہیں رکھتےکہ انھیں کیا پڑھنا ہے۔
-2 امریکا سمیت بیش تر ممالک میں کالج، یونی ورسٹی میں داخلے کے لیے بنیادی اہلیت 12 جماعتیں ہیں۔ اگر آپ نے انجینئرنگ میں انٹرمیڈیٹ کیا ہے اور آگے میڈیکل پڑھنا چاہتےہیں تو آپ کو بائیو لوجی کا اضافی مضمون پڑھنا ہوگا۔
-3 یہ تصدیق کرلیجیے کہ آپ جس ادارے میں داخلہ لے رہے ہیں وہ تسلیم شدہ ہے یا نہیں؟ یہ معلومات متعلقہ سفار ت خانے یا بیرون ملک تعلیم کے موضوع پرعالمی مطبوعات سے ملسکتی ہیں۔
-4 یورپ کی 90 فیصد در س گاہوں میں ذریعہ ء تعلیم ان کی اپنی قومی زبان ہے۔ موسم، ثقافت اور معاشرتی آداب واضح طور پر پاکستان سے مختلف ہیں۔ ان باتوں کو ذہن میں رکھیے۔ یہ معلوم کیجیے کہ آپ جہاں جارہے ہیں وہاں کس زبان میں تدریس ہوتی ہے۔ اگر پاکستان میں اس زبان کی تعلیم دستیاب ہے تو وہ حاصل کیجیے ورنہ کم سے کم ذہنی طورپر تیار ہوکے جائیں۔
-5 جو ادارے بیرونِ ملک تعلیم کے موضوع پر ماہرانہ مشاورت فراہم کرتے ہیں ان سے ضرور رابطہ کیجیے۔ یہ آپ پرمنحصر ہے کہ ان کی خدمات سے فائدہ اٹھائیں یا نہ اٹھائیں۔ لیکن ایک ملاقات سے آپ کو کچھ نہ کچھ معلومات ضرور مل جائیں گی۔