متفرق
نرسنگ
مریضوں کی تیمار داری کا کام اتنا ہی قدیم ہے جتنا اس زمین پر انسان کا وجود۔ تہذیب کی ترقی اور سماجی زندگی کے منظم ہونے کے نتیجے میں علاج معالجہ اور مریضوں کی دیکھ بھال علم اور فن بن گئے اور آج کی دنیا میں ڈاکٹر، نرس اور اسپتال کے بغیر کسی مہذب معاشرے کا تصوّر نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ علاج معالجے کی سہولتیں کتنی ہی بہتر کیوں نہ ہوں، علاج کرنے والے اپنے شعبے کے کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں، جب تک اس پورے نظام کو تربیت یافتہ نرس کی سہولت حاصل نہ ہو، علاج معالجے کا نظام کامیابی کے ساتھ نہیں چلایا جاسکتا۔
پاکستان سمیت بیش تر ترقی پذیر ممالک میں نرسوں کی شدید قلّت ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قابل احترام پیشے کو عام لوگوں کی نگاہوں میں وہ اہمیت اور حیثیت حاصل نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔
نرسنگ ایک محترم پیشہ ہے۔ بیمارانسانوں اور دکھ اور تکلیف میں مبتلا لوگوں کے لیے سفید لباس میں ملبوس نرس ایک ایسے فرشتے کی مانند ہے جو اپنے خوش نظر وجود، گفتگو کی نرمی، نگاہوں کی حرارت، لبوں کی لطیف مسکراہٹ اور دستِ مسیحائی کی بہ دولت اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے مریض کی دل جوئی کرتی ہے، اس میں بیماری سے مقابلے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے اور یہ یقین و اعتماد زندہ کرتی ہے کہ مرض کتنا ہی خطرناک کیوں نہ ہو، وہ ایک دن شفایاب ہو کر اپنے گھر کو لوٹے گا اور زندگی اس کے لیے ایک بار پھر حسین، دلچسپ اور مہربان بن جائے گی۔
بعض دوسرے پیشوں کے مقابلے میں نرسنگ کے پیشے میں خواتین کے لیے بیرونِ ملک ملازمت کے مواقع نہایت روشن ہیں اور اس طرح خاندان کی معاشی ضروریات کی تکمیل میں خواتین نرسنگ کے پیشے کو اپنا کر، اپنے گھر کے مردوں کا ہاتھ بٹا سکتی ہیں۔
سب سے زیادہ قابل توجہ اور خوش گوا ر بات یہ ہے کہ جو طالبات نرسنگ کی تعلیم وتربیت حاصل کرتی ہیں، انھیں تعلیم و تربیت کے دوران برائے نام اخراجات برداشت کرنے ہوتے ہیں۔ بیش تر نرسنگ اسکولوں میں طالبات کو وظیفہ دیا جاتا ہے اور مفت تعلیم و رہائش فراہم کی جاتی ہے۔
کام کی نوعیت
نرسوں کو بالعموم شفا خانوں (اسپتالوں) میں کام کرنا ہوتا ہے۔ نرس کی بنیادی ذمہ داری مریض کی جسمانی اور ذہنی دیکھ بھال ہے۔ یہ مریض ذہنی اور جسمانی امراض میں مبتلا لوگ بھی ہوسکتے ہیں اور ذہنی و جسمانی معذوری کا شکار افراد بھی ہوسکتے ہیں۔ نرس کے کام کا جوہر ’’خیال رکھنا‘‘ ہے۔
نرسوں کی عالمی کونسل کے منشور میں اس پیشے کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
’’نرسیں بیماروں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ طبعی، سماجی اور روحانی طور پر ایسا ماحول پیدا کرتی ہیں جو صحت یابی میں معاون ہو، امراض سے بچاؤ پر زور دیتی ہیں اور صحت کے فروغ کے لیے تعلیم اور مثالوں سے کام لیتی ہے۔ وہ فرد کو ،خاندان کو اور معاشرے کو صحت کے پیشے کے دوسرے ارکان کے ساتھ صحت کی خدمات فراہم کرتی ہیں، انسانیت کی خدمت نرسوں کا بنیادی کام ہے اور ان کے پیشے کے قیام کی بنیاد ہے۔ نرسوں کی خدمات کی ضرورت عالم گیر ہے۔ اس لیے پیشہ ورانہ نرسنگ کی خدمات بلالحاظِ قومیت، نسل، رنگ، سیاست یا سماجی مرتبے کے کی جاتی ہیں‘‘۔
ایک نرس ہر مریض کے لیے انفرادی طور پر اس کی دیکھ بھال کا خاکہ بناتی ہے۔ اس کی صحت کی مختلف کیفیات کا ریکارڈ مرتب کرکے، اس کی حالت میں مثبت یا منفی تبدیلیوں کا جائزہ لیتی ہے۔ مریض کی کیفیات کی روشنی میں دیکھ بھال کے طریقوں کو تبدیل کرتی ہے اور علاج کے سلسلے میں کسی بھی متبادل انتظام کے لیے پہلے سے تیاری کرکے رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک نرس، مریض/مریضوں کے طبی علاج سے پوری طرح باخبر رہتی ہے۔ ہر مریض کے علاج کا مکمل ریکارڈ رکھتی ہے اور دواؤں، غذا، پرہیز و احتیاط کے بارے میں ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی نرس ہر مریض کی ذہنی و جسمانی ضروریات کا بھی خیال رکھتی ہے اور مریض کے رشتے داروں کو مریض کی حالت سے آگاہ کرتی ہے۔
تعلیم و تربیت کے ادارے
نرسنگ کی تعلیم و تربیت نرسنگ اسکولوں میں ہوتی ہے۔
دنیا کا پہلا نرسنگ اسکول 1854ء کے بعد برطانیہ کے سینٹ تھامس اسپتال میں فلورنس نائٹ اینگیل کی زیر نگرانی قائم ہوا۔
پاکستان میں نرسنگ کے چار سالہ نصاب کی تعلیم و تربیت نرسنگ اسکولوں میں ہوتی ہے۔ملک بھر میں اٹھاسی سرکاری اور نجی نرسنگ اسکول موجود ہیں جہاں نوجوان طالبات کو چار سال تک متعلقہ مضامین کی تعلیم اور منسلک شفا خانے میں عملی تربیت دی جاتی ہے۔ ہر نرسنگ اسکول کے ساتھ ہاسٹل موجود ہے اور طالبات کے لیے ضروری ہے کہ وہ تعلیم کے پورے عرصے میں ہاسٹل میں رہیں خواہ ان کا گھر اسی شہر میں کیوں نہ ہو۔
چوں کہ نرسنگ کے پیشے میں طالبات زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر اس پیشے کو خواتین کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے اس لیے پاکستان میں بھی نرسنگ کی تعلیم کے نوے فی صد ادارے طالبات کے لیے ہیں۔ مرد نرسوں کے چند اسکول کام کر رہے ہیں۔
ہر صوبے میں نرسنگ اسکولوں کی تعداد اور ان کی حیثیت یہاں درج ہے۔