متفرق
صحافی کیسے بنتا ہے؟
صحافی بطنِ مادر سے نہیں، درس گاہوں سے یعنی مناسب تعلیم اور تربیت کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں
ابلاغ کار ( عرف عام میں صحافی) کیسے بنتا ہے؟ ایک مکتبہء فکر کا کہنا ہے کہ اعلی اخلاقی اقدار کسی فرد کو اعلی پائے کا صحافی بناتی ہیں دوسرے مکتبہء فکر کا کہنا ہے کہ اعلی تعلیمی معیار بڑا صحافی پیدا کرتا ہے۔ کچھ یقین سے کہتے ہیں کہ مسابقت پسندی اور صبر آزمائی والی روح بڑے صحافی پیدا کرتی ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ شعور ، اسلوب، ڈراما پسندی، عوام کے مقدمے کو بے جگری سے لڑنے اور سچائیوں کے بے ٹوک انکشاف کے لیے مہم جوئی کے جنوں سے صحافی بڑے صحافی بنتے ہیں۔
یہ سب مجموعی طور پر اپنی جگہ درست ہے اوران ہی بنیادوں پر عام پڑھے لکھے لوگ اس پیشے میں آکر کچھ برسوں کی عملی مشق اور تجربے سے بڑے صحافی بنتے رہے ہیں۔ مگر جیسے جیسے اس پیشے میں فنی گہرائی آرہی ہے، تخصیص پیدا ہورہی ہے اور تکنیک کا استعمال بڑھ رہا ہے ، ویسے ویسے باقاعدہ پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کا احساس بھی عالم گیر طور پر روز افزوں ہے۔ امریکا میں جوزف پلٹزر پہلا شخص تھا جس نے کھل کر کہا کہ صحافی بطنِ مادر سے نہیں، درس گاہوں سے(یعنی مناسب تعلیم اور تربیت کے ذریعے) پیدا ہوتے ہیں۔ چناں چہ امریکا میں صحافت کی فنی تعلیم و تربیت کی روایت اب تقریباً سو برس پرانی ہے ۔
برصغیر میں صحافت کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں جامعات کے کردار کی ادائیگی کی ضرورت کو اب سے تقریباً آدھی صدی پہلے ہی تسلیم کرلیا گیا تھا۔ قیامِ پاکستان سے قبل 1941ء میں جامعہ پنجاب میں شعبہ صحافت قائم ہوا۔ آزادی کے بعد ہمارے یہاں جب صحافت نے باقاعدہ ایک صنعت کی شکل میں ڈھلنا شروع کیا تو نئے کارکنوں کی پیشہ ورانہ تربیت کی ضرورت کو بھی نسبتاً زیادہ اہمیت کے ساتھ محسوس کیا گیا۔ 1955ء میں کراچی اور حیدر آباد کی جامعات میں تدریسی شعبے قائم ہوئے ۔