Connect with us

متفرق

سائنس اور ریاضی کے علوم کا عملی استعمال

Published

on

 الیکٹریکل انجینئرنگ سائنس اور ریاضی کے علوم کا عملی استعمال اور مسائل کے حل یا اشیا کی تیاری کے لیے ان نظریاتی علوم کا عملی اطلاق انجینئرنگ کہلاتا ہے۔ انسانی زندگی کی تمام تر ترقی انجینئرنگ کی بدولت ہی ممکن ہوئی ہے۔ انجینئرنگ کی وسیع و عریض دنیا میں برقیات سے متعلق کاموں اور اشیا کے شعبے کو الیکٹریکل انجینئرنگ کا شعبہ کہا جاتا ہے۔ اسے دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ زیادہ قوت کی برقی رو(ہیوی کرنٹ) سے متعلق شعبے کو الیکٹریکل انجینئرنگ اور کم قوت کی برقی رو (لائٹ کرنٹ) سے متعلق شعبے کو الیکٹرونک انجینئرنگ کہا جاتا ہے۔ اس مضمون میں ہم صر ف الیکٹریکل انجینئرنگ (زیادہ قوت کی برقی روسے متعلق شعبہ) میں تعلیمی سہولتوں اور اس پیشے کے امکانات کے بارے میںگفتگو کریں گے۔

پیشے کا تعارف
الیکٹریکل انجینئرنگ….بجلی کی پیدوار، ترسیل، تقسیم، کنٹرول اور بجلی کے استعمالات کا علم ہے۔ برقی قوت کو بالعموم میکانکی قوت، حرارت، آواز، روشنی یا کیمیائی قوت میں کسی موٹر، برقی مقناطیس، بھٹی، لاﺅڈ اسپیکر، لیمپ یا الیکٹرولائی ٹک کے ذریعے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔کسی ذریعے کو استعمال کرتے ہوئے برقی قوت کی میکانکی قوت میں تبدیل ہونے کی اس صلاحیت کی وجہ سے الیکٹریکل انجینئرنگ نے موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔
الیکٹریکل انجینئرنگ کا آغاز جنریٹروں کے ذریعے برقی قوت پیدا کرنے کے کام سے ہوتا ہے۔ بجلی، تیل، گیس، کوئلہ یا جوہری توانائی سے کام کرنے والے جنریٹروں یا دریاﺅں پر بند باندھ کر بہتے پانی کی قوت استعمال کرکے پیدا کی جاتی ہے پھر اس بجلی کو صنعتی اور گھریلو استعمال کے لیے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں تک پہنچایا جاتا ہے اور اس کام کے دوران ترسیل و تقسیم کے مختلف آلات نصب کیےجاتے ہیں۔ بجلی گھر میں برقی قوت کی پیدوار، شہروں تک اس کی ترسیل، آبادیوں میں صنعتی اور گھریلو مقاصد کے لیے اس کی تقسیم اور بجلی کے آلات کی تنصیب کے ان تمام کاموں کی نگرانی الیکٹریکل انجینئروں کی ذمہ داری ہے۔

تعلیم کی سہولتیں
پاکستان میں گریجویشن کی سطح پر الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بنیادی اہلیت پری انجینئرنگ میں بارہویں جماعت میں کامیابی ہے۔ مخصوص نشسوں کے علاوہ عام داخلے اوپن میرٹ کی بنیادپر ہوتے ہیں۔
بی ای یا بی ایس سی (انجینئرنگ) کی ڈگری کے لیے درجِ ذیل تعلیمی اداروں میں چار سالہ نصاب کی تعلیم دی جاتی ہے۔
1۔این ای ڈی یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، کراچی
2۔مہران یونی ورسٹیآف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، جام شورو
3۔یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈٹیکنالوجی، لاہور
4۔این ڈبلیو ایف پی یونی ورسٹیآف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، پشاور
5۔بلوچستان انجینئرنگ کالج ،خضدار
6۔یونی ورسٹیکالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، نواب شاہ
7۔یونی ورسٹی کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، ٹیکسلا
8۔یونی ورسٹی کالج آف انجینئرنگ۔ میر پور (آزاد کشمیر)
طالب علموں کی تعداد کے اعتبار سے لاہور انجینئرنگ یونی ورسٹیکا الیکٹریکل انجینئرنگ کا شعبہ سب سے بڑا ہے، جہاں ہر سال تقریباً 222طلبہ کو داخلے دیے جاتے ہیں۔ لاہور یونی ورسٹیسے ملحقہ ٹیکسلا انجینئرنگ کالج کے شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ کی گنجائش 58، این ای ڈی انجینئرنگ یونی ورسٹیکے شعبہ الیکٹریکل میں 144، مہران انجینئرنگ یونی ورسٹیجام شورو میں 55، نواب شاہ انجینئرنگ کالج میں 83 اور سرحد انجینئرنگ یونی ورسٹیمیں 86طلبہ کے داخلوں کی گنجائش ہوتی ہے (بلوچستان انجینئرنگ کالج خضدار اور آزاد کشمیر کے کالج آف انجینئرنگ کے الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبوں میں نشستوں کی تعداد دستیاب نہیں ہے) ۔سال اوّل میں داخلے کے لیے نشستوں کی یہ تعداد حتمی نہیں ہے ان میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔
بی ای/بی ایس سی، الیکٹریکل انجینئرنگ میں سال اوّل میں داخلے کے لیے چند نشستیں  بی ایسسی (پری انجینئرنگ) ایسوسی ایٹ انجینئرنگ میں ڈپلوما ہولڈر ای کیڈٹس اور مخصوص علاقوں کے لیے ہوتی ہیں۔

نصاب تعلیم
یہ بات قابل توجہ ہے کہ انجینئرنگ یونی ورسٹیوں میں الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے میں تعلیمی نصاب یکساں نہیں ہے ہر یونی ورسٹینے اپنے طلبہ کے لیے علیحدہ نصاب وضع کر رکھا ہے۔ این ای ڈی انجینئرنگ یونی ورسٹیکے الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے میں چار سال کے دوران طلبہ کو درجِ ذیل نصاب کے مطابق پڑھایا جاتا ہے۔
چار سالہ ڈگری کورس کے پہلے سال میں طلبہ کو جدید کمپیوٹرز کا مطالعہ اور استعمال دیکھنا ہوتا ہے ۔ اس میں کمپیوٹر کی بنیادی ساخت، آپریشن، کوڈنگ، کمپیوٹر ریاضی، کمپیوٹر سائنس کا تعارف اورپروگرامنگ کی زبانیں وغیرہ شامل ہیں۔ دیگر مضامین میں الیکٹریکل انجینئرنگ کی مبادیات، اطلاقی ریاضیات، اطلاقی کیمیا، ریاضیات، انگریزی اور مطالعہءپاکستان شامل ہیں۔ دوسرے سال کے نصاب میں فورٹران پروگرامنگ، سرکٹ تھیوری، الیکٹرونکس، برقی مشینیں، لاجک ڈیزائن اور سوئچنگ تھیوری،لائیینئر الجبرا، ڈفرینشل اکیوئیشن، سالڈ جیومیٹری، کیلکولس، کامپلکس ویریئیبل، اسلامیات اور اخلاقیات شامل ہیں۔ تیسرے سال کے نصاب میں سرکٹ تھیوری، انسٹرومینٹیشن ،پاور الیکٹرانکس برقی مشینیں، برقی قوت، لاجک ڈیزائن اور سوئچنگ تھیوری، برقی مقناطیسی میدان، دور مواصلات، ریاضیات، ریاضیاتی طریقے، شماریات اور انجینئرنگ اقتصادیات شامل ہیں۔ سالِ آخر کے نصاب میں سالڈ اسٹیٹ ڈیوائسس، جدید برقی مشینیں توانائی کی بچت، برقی توانائی، کمپیوٹر آرکی ٹیکچر اینڈ آرگنائزیشن، لائینئر کنٹرول سسٹمز، دور مواصلات، برقی انجینئرنگ کے منصوبے اور نیومریکل میتھڈز شامل ہیں۔
اخراجات ، وظائف اور سہولتیں
بیچلرز آف انجینئرنگ سال اول کی فیس تقریباً چار سو روپے ہے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے سال کی ٹیوشن فیس فی تعلیمی سال 200روپے ہے۔ دیگر فنڈز کے ضمن میں 65روپے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ ہاسٹل کے اخراجات 240 روپے سالانہ ہیں۔تمام انجینئرنگ یونی ورسٹیوں میں ڈیوٹی سوسائٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو طلبہ کی مالی امداد کے لیے غیر سودی قرضے دیتی ہیں۔ ان قرضوں کی شرائط اور درخواست فارم متعلقہ سیکریٹری سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ تمام ہی جامعات میں لینڈنگ لائبریاں، سیمینار لائبریریاں اور کتابوں کے بینک قائم ہیں۔ طلبہ ان کی رکنیت حاصل کرسکتے ہیں۔ لینڈنگلائبریری سے کتابیں ایک تعلیمی سال کے لیے جاری کی جاتی ہیں۔ یونی ورسٹیوں کی جانب سے طلبہ کی مالی امداد کی اسکیموں کے علاوہ حکومتِ پاکستان اور نیشنل بینک آف پاکستان کی جانب سے بھی غیر سودی قرضوں اور قرض حسنہ کی اسکیمیں جاری کی گئی ہیں، جن کا اعلان وقتاً فوقتاً اخبارات میں کیا جاتا رہتا ہے۔

ذاتی خصوصیات
انجینئرنگ کے پیشے میں ایسے نوجوان زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں جو عملی سوچ رکھتے ہوں اور تخلیقی صلاحیت کے حامل ہوں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ منطقی ذہن کے مالک ہوں اور ہر کام کرنے سے پہلے اس کا طریقہء کار واضح طور پر ترتیب دینے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
انجینئروں کو ایک منتظم کی حیثیت سے بھی کام کرنا ہوتا ہے اس لیے ان میں پسندیدہ عادات و خصائل ہونے چاہئیں۔ ٹیم کی صورت میں کام کرنے اور دوسروں سے خوش گوار طریقے سے کام لینے کی صلاحیت رکھنے والے زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں۔ کام کو منظم طریقے سے کرنے اور ریکارڈ کو احتیاط سے مرتب کرنے کی خاصیت، خود ان کے کام میں آسانی پیدا کرسکتی ہے۔
حالات کار اور ماحولِ کار
الیکٹریکل انجینئروں کو بجلی گھروں اور ان کے کنٹرول رومز میں بجلی کی پیداوار کے عمل میں نگرانی کرنی ہوتی ہے۔ پن بجلی گھروں میں ٹربائن اور جنریٹروں کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے، تھرمل پاور اسٹیشنوں میں بوائلروں اور جنریٹروں کے ذریعے بجلی پیدا ہوتی ہے جب کہ ڈیزل انجنوں سے بھی جنریٹروں کو چلایا جاتا ہے۔ بجلی گھر سے برقی قوت گرڈ اسٹیشنوں کو فراہم کی جاتی ہے جو بجلی کی ترسیل کے نظام کا بنیادی حصہ ہیں گرڈ اسٹیشن سے بجلی سب اسٹیشن کے ذریعے گھروں اور کارخانوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ بڑے صنعتی اور کاروباری اداروں میں مشینیں اور آلات بجلی کی قوت سے چلتے ہیں۔ بعض بڑے صنعتی/کاروباری اداروں میں جنریٹر نصب ہوتے ہیں جو برقی رو میں تعطل کی صورت میں چلائے جاتے ہیں تاکہ پیداواری عمل میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔پاکستان میں بجلی کی پیداوار اور ترسیل و تقسیم کا انتظام ابھی تک سرکاری شعبے میں ہے۔ کراچی میں کے ای ایس سی اور ملک کے دیگر حصوں میں واپڈا بجلی پیدا کرنے اور اس کی ترسیل و تقسیم کے ذمہ دار ہیں۔ اس اعتبار سے یہ دو بڑے ادارے ہیں، جہاں الیکٹریکل انجینئروں کی بڑی تعداد کام کرتی ہیں۔ چوںکہ بجلی کی پیداوار اور ترسیل و تقسیم کا عمل ایک مسلسل اور ہمہ وقتی کام ہے اس لیے انجینئروں کو شفٹوں میں کام کرنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات گھر سے دور بھی تقرری عمل میں آتی ہے۔ شہروں کے علاوہ آبادی سے دور دراز مقامات پر بھی کام کرنا ہوتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الیکڑیکل انجینئروں کے کام اور ملازمتوں کے مواقع میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ انسٹی ٹیوشن آف الیکٹریکل انجینئرز کے ایک سروے کے مطابق الیکٹریکل اور الیکٹرونکس انجینئروں کا ایک بڑا حصہ تحقیق، ترقی اور ڈیزائن کے شعبوںمیں خدمات انجام دے رہا ہے، 1970ءکے اعداد و شمار کے مطابق ترقی یافتہ ملکوں میں نجی شعبے کے 42 فیصد انجینئر ترقی اور ڈیزائن کے شعبوں میں کام کر رہے تھے۔ ان میں سے دو تہائی کے قریب منیجر اور منتظم تھے۔اور 4.4 فی صد تحقیق کے کاموں میں مصروف تھے۔ سرکاری شعبے میں 18.4 فی صد انجینئرترقی اور ڈیزائن کے شعبوں میں اور 5.5 فی صد تحقیق کے شعبوں میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ خالص تحقیقی کاموں میں مصروف انجینئروں کا تناسب بہت کم ہے۔ درحقیقت تحقیق اور ترقی کے مابین خط امتیاز کھینچنا ایک مشکل کام ہے۔ نئی ایجادات اور اشیا کی تشکیل کے تصورات پر مبنی نظری کام زیادہ تر سائنس دان کرتے ہیں۔ الیکٹریکل اور الیکٹرونک انجینئر ان تصورات کی بنیاد پر اشیا اور مادوں کی ساخت اور خصوصیات کا مطالعہ کرتے ہیں پھر ڈیزائن کے کام سے لے کر اشیا کی پیدوار تک ہر مرحلے میں انجینئروں ہی کا دخل ہوتا ہے۔ بعض اوقات انھیں دوسرے شعبوں کے انجینئروں مثلاً مکینیکل انجینئرز، سائنس دان، ماہرینِ طبیعیات و کیمیا کے ساتھ مل کر کام کر ہوتا ہے۔ الیکٹرونکس انجینئرنگ کا زیادہ تر کام نازک اور نفیس اشیا کی تشکیل اور پیداوار سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ الیکٹریکل انجینئر زیادہ تر بھاری بھرکم مشینوں مثلاً ٹرانسفارمروں، سوئچ گیئروں، جنریٹروں موٹروں اور بجلی کی ترسیل کے آلات وغیرہ پر کام کرتے ہیں۔ توانائی کے حصول کے نئے طریقوں مثلاً شمسی توانائی، ہوائی چکیوں اور سمندری لہروں سے بجلی پیدا کرنے کے لیے تحقیقی کام جاری ہے۔ اس تحقیق کا زیادہ زور موجودہ نظام کو پہلے سے بہتر بنانے اور اس مقصد کے لیے نئے آلات کی تشکیل پر ہے۔
پیداوار کے شعبوں میں الیکٹریکل انجینئر کسی بجلی گھر کے انتظام اور انصرام سے متعلق رہتے ہوئے منصوبہ بندی اور نظمیات سے متعلق فنی خرابیوں کو دور کرنے کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ وہ جنریٹروں اور سرکٹ بورڈوں کی پیداوار کے فنی شعبے کو کنٹرول کرتے ہیں اور ان کی حیثیت ہمیشہ ایک منیجر کی ہوتی ہے۔ مارکیٹنگ، سیلز اور بازار کاری وغیرہ کے شعبوں میں بھی الیکٹریکل انجینئروں کی کھپت کافی زیادہ ہے۔ برقی و برقیاتی صنعت کو ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو اس صنعت سے متعلق مناسب معلومات اور تجربے کے حامل ہوں اور برقی و برقیاتی مصنوعات فروخت کرسکتے ہوں۔ نجی شعبے میں 12.3فی صد انجینئر سیلز اور مارکیٹنگ کے شعبے سے متعلق ہےں۔
الیکٹریکل انجینئرنگ میں جنرل مینجمنٹ کا شعبہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ نجی شعبے میں انجینئروں کا ایک بڑا تناسب تقریباً 19 فی صد یہاں خدمت انجام دے رہا ہے۔ الیکٹریکل انجینئروں کا کوئی 20 فیصد پولی ٹیکنیک اداروں اور انجینئرنگ یونی ورسٹیوں میں تدریس کے پیشے سے منسلک ہے۔

ملازمت کے مواقع اور تنخواہیں
پاکستان میں برقی انجینئرنگ اور برقیات کے شعبے میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے اور اسی رفتار سے ڈپلوما اور ڈگری یافتہ انجینئروںکے لیے روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سرکاری شعبے میں واپڈا، بڑے بڑے پن بجلی گھر، ہیڈ ورکس، مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام اور کارپوریشنوں میں الیکٹریکل انجینئروں کی بڑی کھپت ہے۔ عام طور پر سرکاری ملازمت ڈومیسائل کی بنیاد پر ملتی ہے۔ نجی شعبے میں مسابقت کی کیفیت ہے۔ نجی ادارے اور سرمایہ کار طلبہ کی ڈگریوں پر زیادہ اعتبار نہیں کرتے۔ اس لیے نجی شعبے میں صرف وہ گریجویٹ کامیاب ہوتے ہیں جنھوں نے صحیح معنوں میں تعلیم اور تربیت حاصل کی ہوتی ہے۔ ذہین اور محنتی طلبہ کو امتحان کے نتائج آنے سے قبل ہی اچھی ملازمتوں کی پیش کش ہوجاتی ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ واپڈا اور کے ای ایس سی دو بڑے ادارے ہیں جہاں الیکٹریکل انجینئروں کے لیے ملازمتیں دستیاب ہوتی ہیں۔ ان کے علاوہ سرکاری شعبے میں اٹامک انرجی کمیشن ، پی آئی اے، پاکستان ریلوےز، اے ڈی اے، ٹیلیفون کا محکمہ، پی آئی ڈی سی، پیکو، پاک سوزوکی، آٹو موبائل کارپوریشن، سیمنٹ کارپوریشن، نیس پاک ایسے ادارے ہیں جہاں الیکٹریکل انجینئروں کے لیے ملازمت کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔نجی شعبے میں عام صنعتی کارخانوں کے علاوہ چند بڑے ادارے ہیں جن میں سیمینز، فلپس، اے ای جی اور جے اینڈ پی شامل ہیں ۔تعمیراتی کمپنیاں، جہاز راں ادارے اور مشاورتی فرمیں بھی الیکٹریکل انجینئروں کو ملازمتیں فراہم کرتی ہیں۔
تازہ سند یافتہ الیکٹریکل انجینئر کا تقرر سرکاری اور نیم سرکاری شعبے میں گریڈ 17 یا اس کے مساوی عہدے پر عمل میں آتا ہے جس کی مجموعی تنخواہ تقریباً ساڑھے تین ہزار روپے ہوتی ہے۔ نجی اداروں میں امیدوار اور ادارے کی حیثیت کے مطابق ابتدائی تنخواہ کی شرح 3 ہزار سے 4 ہزار روپے ماہانہ تک ہوسکتی ہے۔

مستقبل کے امکانات
پاکستان میں بجلی کی توانائی کی قلّت ہے۔ اس وقت واپڈا تقریباً ۶ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے جب کہ کے ای ایس سی کی پیداواری صلاحیت ۱۱ سو میگا واٹ ہے۔ ان کے علاوہ پاکستان اسٹیل مل اور کراچی کا جوہری بجلی گھر (کینوپ) بھی بجلی پیدا کرتے ہیں۔ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے کئی منصوبےزیرِ تکمیل اور کئی زیرِ غور ہیں۔ کراچی میں بن قاسم کے بجلی گھر میں ۲۱۰ میگاواٹ کے دو مزید یونٹ زیرِ تکمیل ہیں جب کہ ویسٹ و ہارف تھرمل پاور اسٹیشن پر پرانے یونٹ کو تبدیل کرکے دو سو میگاواٹ کا نیا یونٹ نصب کیے جانے کی تجویز زیرِ غور ہے۔ ادھر واپڈا، تربیلا بجلی گھر کی پیداواری قوت میں اضافہ کر رہی ہے۔ اور اس مقصد کے لیے چار نئے یونٹوں کی تنصیب زیرِ تکمیل ہے۔ ملک کے بیش تر دیہات بجلی سے محروم ہیں اور رفتہ رفتہ انھیں بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔
ان تمام منصوبوں کی تکمیل کے لیے الیکٹریکل انجینئروں کی ضرورت ہوگی اور اس روشنی میں الیکٹریکل انجینئرنگ کے پیشے کا مستقبل امکانات سے بھرپور نظر آتا ہے۔

متعلقہ پیشے
الیکٹریکل انجینئرنگ کے متعلقہ پیشوں میں پولی ٹیکنیک کے ڈپلوما ہولڈرز اور بی ٹیک سند کے حامل نوجوان کام کرتے ہیں۔ یہ حضرات سپروائزر، فورمین اور معاون انجینئرز کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔ پولی ٹیکنیکس میں الیکٹریکل انجینئرنگ کے 3 سالہ ڈپلوما کورس میں داخلے کے لیے سائنس یا ٹیکنیکل گروپ میں میٹرک کامیاب امیدواروں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بی ٹیک میں داخلے کی اہلیت، ایسوسی ایٹ انجینئر کا ڈپلوما ہے۔
رجسٹریشن
سند یافتہ انجینئروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو پاکستان انجینئرنگ کونسل سے رجسٹرڈ کروائیں۔ انسٹیٹیوشن آف الیکٹریکل انجینئرکے مطابق اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ شدہ الیکٹریکل انجینئروں کی تعداد ۶ہزار ہے۔
مزید معلومات
الیکٹریکل انجینئرنگ کے پیشے کے بارے میں مزید معلومات کے لیے درجِ ذیل اداروں سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
1۔صدر دفتر
انسٹیٹیوشن آف الیکٹریکل انجینئرز پاکستان
4۔لارنس روڈ، لاہور
۔علاقائی دفتر 1۔ اے ، یونی آرکیڈ، بلاک نمبر3
گلشنِ اقبال ، کراچی

3۔صدر دفتر
پاکستان انجینئرنگ کونسل
52۔مارگلہ روڈ، اسلام آباد

4۔انسٹیٹیوٹ آف انجینئرز پاکستان
۷۷۱/2،شارع فیصل، کراچی

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *