افواج
بری فوج کا بنیادی یونٹ بٹالین ہے
بری فوج کا بنیادی یونٹ بٹالین یا رجمنٹ ہوتی ہے۔ ہر رجمنٹ /بٹالین ایک خاص کام کی ماہر ہوتی ہے اور اس کے افسروں اور جوانوں کا انتخاب اس خاص مہارت کی صلاحیت رکھنے والے افراد میں سے کیا جاتا ہے۔ رجمنٹ/بٹالین کو دورانِ جنگ یا اس سے پہلے ان کی خدمات کی نوعیت کے پیشِ نظر تین اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
لڑاکا بازو
یہ وہ فوجی دستے ہوتے ہیں جنھیں جنگ میں براہِ راست مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ لڑاکا فوج تین حصوں پر مشتمل ہوتی ہے
-1 رسالہ ( آمرڈ ) -2 پیدل ( انفینٹری) -3 فضائیہ ( آرمی ایوی ایشن)
معاون بازو
اس شعبے کے افراد کو لڑنے کی تربیت اس طرح دی جاتی ہے کہ وہ لڑاکا شعبوں کو لڑائی جاری رکھنے میں مدد دے سکیں۔ معاون بازو کے درجِ ذیل حصے ہیں
-1 توپ خانہ ( آرٹلری) -2انجینئر -3سگنلز -4 آرمی ایئر ڈیفنس
معاون خدمات
لڑاکا بازو اور معاون بازو، دونوں عملی جنگ میں براہِ راست شریک ہوتے ہیں، جب کہ معاون خدمات کے شعبوں کے افراد بھی وقت پڑنے پر لڑ سکتے ہیں لیکن ان کا بنیادی کام لڑنے والے دونوں شعبوں ( لڑاکا بازو /معاون بازو) کوایسی خدمات مہیا کرنا ہے جن کی مدد سے جنگ جاری رکھی جاسکے ۔
معاون شعبوں میں درجِ ذیل نام شامل ہیں :
آرمی سروس کور ، آرمی میڈیکل کور ، آرڈی نینس کور ، کور آف الیکٹریکل اینڈ میکینکل انجینئرز ، آر وی ایف سی ، آرمی ایجوکیشن کور اور خدمات کا شعبہ فوج کے اہم لڑاکا دستوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:
-1 رسالہ ( آمرڈ)
ٹینک، جنگ کا فیصلہ کن ہتھیار ہے۔ قدیم دور میں جنگیں گھوڑوں پر بیٹھ کر لڑی جاتی تھیں، آج ٹینکوں پر بیٹھ کر لڑی جاتی ہیں ۔ رسالے کا کام دشمن کی صفوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دینا، اسے تتر بتر کردینا، دشمن کے حوصلے پست کرنا اور بالآخر اسے تباہ و برباد کردینا ہے۔ یہ آہنی جوان اورافسر ہی ہوتے ہیں جو رسالے میں شامل ہوکر وطن کا دفاع کرتے ہیں ان کو عرفِ عام میں بکتر بند دستے بھی کہا جاتاہے ۔
-2 پیدل فوج ( انفینٹری)
پیدل سپاہی، لڑاکا فوج کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ یہ فوج کے وہ دستے ہیں جو دشمن کا دو بدو مقابلہ کرتے، اسے زیر کرتے ہیں اور آگے بڑھ کر علاقہ فتح کرتے ہیں۔ ایک اعتبار سے یہ فوج کا وہ شعبہ ہے جس کے لیے پوری فوج سرگرم عمل رہتی ہے۔ پیدل فوج کے ہر افسر اور جوان کے سامنے ہر وقت ایک چیلنج رہتا ہے۔ ان کی تربیت خاص انداز سے کی جاتی ہے جوانھیں اس قابل بنا دیتی ہے کہ سخت ترین حالات کا مقابلہ کرسکیں، چست ہوں اورسوچنے اور عمل کرنے میں ہر دم مستعد ہوں۔ پید ل فوج کے دستے پیدل بھی آگے بڑھتے ہیں اور بکتر بند گاڑیوں اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی آگے پہنچائے جاتے ہیں ۔
اس وقت پاک فوج کی پیدل فوج چھ رجمنٹوں پر مشتمل ہے ۔
-1 پنجاب رجمنٹ -2 بلوچ رجمنٹ -3 فرنٹیئر رجمنٹ -4 آزاد کشمیر رجمنٹ -5 سندھ رجمنٹ -6 ناردرن لائٹ انفینٹری ۔
-3 برّی فضائیہ ( آرمی ایوی ایشن )
اس شعبے کے افراد امن اور جنگ کے دنوں میں یکساں اہمیت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ جنگ کے دنوں میں اہم کمانڈروں کو تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے انھی کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اپنے علاقے میں رہتے ہوئے دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں۔ اپنے توپ خانے کے فائر کی درستگی اور دشمن کے علاقے میں اہم اہداف کی نشان دہی اور زخمیوں کو میدانِ جنگ سے اسپتال منتقل کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے ۔
شمالی علاقوں میں سیاچن کے محاذ پر ہماری برّی فضائیہ نے اہم خدمات انجام دی ہیں ۔
-4 توپ خانہ ( آرٹلری )
اگلے مورچوں سے قدرے فاصلے پر رہتے ہوئے ، دشمن پر ٹھیک ٹھیک نشانہ لگا کر اسے نیست و نابود کرنے کا کام توپ خانے کا ہے۔ ہلکی ، درمیانی اور بھاری توپیں، کام کرنے والوں کو ٹیم ورک کے ذریعے بالکل درست نشانہ لگانے کا چیلنج دیتی ہیں۔ اب ایسی توپیں بھی آگئی ہیں جنھیں کسی گاڑی کے ذریعے کھینچنا نہیں ہوتا بلکہ وہ خود حرکت کرتی ہیں، آگے بڑھتی ہیں اور دشمن پر آگ برساتی ہیں ۔
-5 انجینئرز
جب جنگ کے بادل منڈلانے لگتے ہیں تو میدانِ جنگ میں سب سے پہلے پہنچنے والے انجینئرز ہوتے ہیں جواپنی فوج کے لیے راستے بناتے ہیں، دریاؤں پر پل تعمیر کرتے ہیں اور دشمن کی متوقع گزرگاہوں میں بارودی سرنگیں بچھاتے ہیں اوررکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جب دوسرے شعبے بیرکوں میں لوٹ جاتے ہیں ، انجینئرز میدانِ جنگ میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ دشمن کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگیں صاف کرتے ہیں۔ بے پھٹے گولے بارود لگا کر اڑاتے ہیں اورعلاقے کو عام شہری آبادی کی رہائش کے قابل بناتے ہیں ۔
اپنے کام میں مہارت کے لیے انجینئرز کے افسران کواندرونِ ملک اور بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم کے مواقع دیے جاتے ہیں ۔
-6 سگنلز
اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جدید زمانے کی جنگ مواصلاتی جنگ ہوتی ہے۔ جس فوج کا مواصلاتی شعبہ یعنی سگنلز جتناماہر ہوگا اس کے جنگ جیتنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ روایتی طور پر تو سگنلز کور ،بٹالین کی سطح سے اوپر یعنی بریگیڈ، ڈویژن ، کور اور جی ایچ کیو کے درمیان مواصلات قائم کرتی ہے، لیکن جدید زمانے میں ان کا کام کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ دشمن کی باہمی پیام رسانی کی ٹوہ میں رہنا، بوقتِ ضرورت دشمن کے مواصلاتی نظام کومعطل (Jam) کرنا،مصنوعی سیاروں کے ذریعے دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا سگنلز کور کی ذمّہ داریوں میں شامل ہے۔
سگنلز کورکے افسروں اور جوانوں کو بھی اعلیٰ تعلیم کے بہترین مواقع مہیا کیے جاتے ہیں۔ اس وقت پاک فوج کی سگنلز کورمیں بیرونِ ملک سے تعلیم یافتہ پی ایچ ڈی افسر تک موجود ہیں ۔
-7 فضائی دفاع ( آرمی ایئر ڈیفنس )
حساس اورنازک آلات او رہتھیاروں کے استعمال کے ماہرافراد، آرمی ایئر ڈیفنس میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کامقصد زمین پرلڑنے والی فوج کا فضائی حملے سے دفاع کرنا ہے۔ اس شعبے کے افراد کو فنی مہارت کی بہترین تربیت دی جاتی ہے۔ ریڈار کا استعمال سکھایا جاتا ہے۔ توپ خانہ، میزائل ، فائر کنٹرول اور ٹریکنگ ، وہ چند شعبے ہیں جن میں ان کی تربیت اورفنی مہارت کی آزمائش ہوتی ہے ۔
-8 آرمی سروس کور
یہ کور پوری فوج کو متحرک رکھنے اور ضروریاتِ زندگی کی اشیا کی فراہمی کی ذمہ دار ہے۔ ٹینکوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے اس کے پاس بڑی اوربھاری گاڑیاں ہوتی ہیں۔ میدان جنگ میں ان کا اہم کام اگلے مورچوں تک غذائی اشیا کی فراہمی ہے ، ان کا نعرہ( موٹو) ہے ’’ہم کبھی ناکام نہیں ‘‘ (We Never Fail) اب تک ہونے والی جنگوں میں انھوں نے یہ قول بہ طریقِ احسن نبھایا ہے ۔
-9 آرمی میڈیکل کور
یہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ امن کے دنوں میں تمام فوجی افراد اوران کے والدین سمیت اہلِ خاندان کو طبی سہولتیں فراہم کرتی ہے اور جنگ کے دنوں میں میدانِ جنگ سے زخمیوں کو اسپتال تک لانے کی ذمہ دار ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں یہ کور بڑی وسعت اختیار کر گئی ہے۔ اس کے ایک شعبے میں جنرل تک کے رینک کے کئی افسر ہوتے ہیں۔ آرمڈ فورسز میڈیکل کالج میں اے ایم سی کے افسروں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے کئی کورس چلائے جاتے ہیں۔
-10 آرڈیننس کور
میدانِ جنگ سے مناسب فاصلوں پرگولہ بارود کے ذخیرے تیار رکھنا اس کور کی اہم ذمہ داری ہے ۔ جوانوں اور جونیئر کمیشنڈ افسروں کے لباس ان کی ضروریات کی دیگر اشیا ، جیسے کمبل، چارپائیاں وغیرہ اور فوج میں استعمال کی بہت سی اشیا بھی آرڈیننس کور فراہم کرتی ہے ۔
-11 کور آف الیکٹریکل اینڈ میکینکل ( ای ایم ای )
ایک چھوٹے سے وائر لیس سے لے کر بھاری گاڑیوں، ٹینکوں، توپوں اور ہیلی کاپٹروں تک کی مرمت ای ایم ای کی ذمہ داری ہے۔ خراب گاڑیوں کو واپس لانا اورانھیں ٹھیک کرکے واپس بھیجنا ان کا اہم کام ہے۔ اس کے لیے مختلف سطحوں پر مختلف ورک شاپ قائم کیے جاتے ہیں ۔
اس شعبے میں کام کرنے والوں کے لیے بنیادی تربیت کا اہتمام ای ایم ای سینٹریا ای ایم ای کالج میں ہوتا ہے ۔
-12 آروی اینڈ ایف سی
فوج کو فراہم کیے جانے والے گوشت اور مچھلی کا معائنہ اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ان کے قابلِ استعمال ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں رائے دینا، فوج کے استعمال کے لیے گھوڑے ، خچر اور گوشت اوردودھ کی فراہمی کے لیے جانور مہیا کرنااور ان جانوروں کی طبی دیکھ بھال آر وی اینڈ ایف سی کی ذمہ داری ہے۔ یہ لفظ مخفف ہے ریماؤنٹ، ویٹرنری اینڈفارمز کور کا۔ جانوروں کی پرورش کے لیے یہ کور ہزاروں ہیکٹر پر مشتمل فارمز قائم کرتی ہے جہاں سے تازہ چارہ اور بھوسا فراہم ہوتا ہے ۔
گھوڑوں ، خچروں اور گائے بھینسوں کے علیحدہ فارم ہوتے ہیں جہاں اعلیٰ قسم کے جانوروں کی افزائش کی جاتی ہے۔ دودھ اور اس کی مصنوعات کے لیے جدید ترین مشینری کی مدد سے ڈیری فارمز قائم کیے گئے ہیں جہاں سے پوری فوج کود ودھ ، مکھن ، پنیر اور دیگرمصنوعات فراہم کی جاتی ہیں ۔ اعلی نسل کے کتوں کی پرورش اور ان کی تربیت کے لیے آرمی ڈاگ بریڈنگ سینٹر قائم ہے ۔
-13 آرمی ایجوکیشن کور
کہا جاتا ہے کہ جنگ ، میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ انسانی دماغوں میں ہاری اور جیتی جاتی ہے ۔ آرمی ایجوکیشن کور فوج میں شامل ہونے والوں کی ذہنی تربیت کی ذمہ دار ہے اور اس کور کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فوج میں جوان کی سطح سے لے کرجنرل تک کوئی شخص ایسا نہیں ہوتا جس نے کسی نہ کسی مرحلے پر ایجوکیشن کورکے کسی افسر کے سامنے زانوئے تلمذتہ نہ کیا ہو۔ ایجوکیشن کورکے افسروں کی سب سے زیادہ نفری پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ہوتی ہے جہاں وہ انٹر میڈیٹ پاس کرکے آنے والوں کو گریجویٹ بناتے ہیں۔ ہر بریگیڈ، ڈویژن اور کور میں ایجوکیشن کور کا ایک افسر ہوتا ہے جو تعلیمی معاملات میں کمانڈر کا مشیر ہوتا ہے ۔
-14 اسپیشل سروسز گروپ ( ایس ایس جی یا کمانڈوز )
تمام آرمز اور سروسز جسمانی طور پر سخت جان افراد کو منتخب کرکے انھیں خاص تربیت دی جاتی ہے ۔
اسپیشل سروسز گروپ کے جاں باز کئی ہنروں کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ وہ سرفروش ہوتے ہیں جنھیں کسی بھی مشن پر، کسی بھی وقت،اعتماد کے ساتھ بھیجا جاسکتا ہے۔ بہترین تربیت یافتہ افراد اور انتہائی نوعیت کے نظم کے پابند، جسمانی اورذہنی طور پر اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے حامل ، یہ ہمیشہ جنگ کے پیچیدہ اور خصوصی مرحلوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ ایس ایس جی کا نشانِ افتخار صرف انھی کے سینوں پر آویزاں کیا جاتا ہے جو صرف ’’بہترین‘‘ ہوں ۔
فوجی افسر
بری فوج میں نوجوانوں کو بہ طور افسر شامل کیا جاتا ہے اور ضروری تعلیم و تربیت کے بعدانھیں افسر کے عہدے پر فائز کرکے چند افراد اور سازو سامان کا ذمہ داربنادیا جاتا ہے۔ افسر کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے یونٹ کے جوانوں اور ماتحت افسروں کی تعلیم و تربیت کا بندوست کرے، تربیت کا شیڈول بنائے اوریونٹ کے انتظامی امور کو چلائے۔ ماتحت افسربھی ترتیب کا شیڈول مرتب کرسکتے ہیں لیکن یہ تربیت کب اور کس انداز سے دی جائے گی، اس کا فیصلہ افسر کرتا ہے۔ افسرکی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے ماتحت افسروں اور جوانوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھے۔ اگر یونٹ کے کسی جوان کوکوئی مشکل درپیش ہو تو افسر اسے مشورہ دے کر اس کی مشکل حل کرسکتا ہے۔ جوانوں اور ماتحت افسروں کا اعتماد حاصل کیے بغیر افسراپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام نہیں دے سکتا۔
تدبیر /جنگی قیادت
جنگ کے دوران افسر کا سب سے اہم کا یہ ہے کہ وہ اپنے یونٹ کے ’’ فیصلے‘‘ کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افسر کو نہ صرف ہر قسم کے ہتھیاروں اور اسلحے سے واقف ہوناچاہیے جو اس کے جوان استعمال کرتے ہیں،بلکہ اسے جنگی تدابیر کے فن (علاقے کا استعمال، کمیوفلاج،نقشہ پڑھنا) کا بھی ماہر ہونا چاہیے۔ جنگ ہو یا امن، افسر کو ہر حالت میں قیادت کا فرض ادا کرنا ہوتا ہے۔ان تمام باتوں کا انحصار افسرپر ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے یونٹ کو کہاں اُتارے اوردستیاب وسائل کو کس طرح بہترین طریقے سے استعمال کیا جائے، خواہ وہ پیدل فوج کا یونٹ ہو، رسالے کا یا توپ خانے کا۔یہ تمام ذمہ داریاں اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بہ احسن پوری کرنا ہوتی ہیں کہ افسروں کے حکم کی تعمیل کی جائے اور فوج کی سرگرمیوں میں شامل دوسرے معاون شعبوں کو پیشِ نظر رکھا جائے۔
ماحولِ کار
چوں کہ فوج کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ ہر طرح کے حالات میں دشمن کا مقابلہ کرسکے، اس لیے افسروں اور جوانوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مختلف نوعیت کے ماحول اور حالات سے نمٹ سکتے ہیں۔ آندھی، برسات، برف باری،سخت سردی، شدید گرمی۔۔۔کیسا ہی موسم ہو، فوج کواپنا کام کرنا ہوتاہے۔ بارش کے موسم میں جب ٹینک کھیتوں اور کھلیانوں سے گزرتے ہیں تو وہاں دلدل اور کیچڑ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ گرمیوں میں جب ٹینک صحرائی علاقوں سے گزرتے ہیں توخاک اور دھول کے بادل فضا کو ڈھانپ لیتے ہیں، جوانوں کوگرم موسم میں بندگاڑیوں میں محاذ پر پہنچایا جاتا ہے۔ ان گاڑیوں میں جگہ تنگ ہوتی ہے۔ اس لیے فوج کے افسروں اورجوانوں کوہر طرح کے موسم اور مشکل حالات کا عادی ہوناہوتا ہے ۔
ترقی کے امکانات
بری فوج میں ترقی کے مواقع افسرکی ذاتی قابلیت، صلاحیت اور مطلوبہ امتحان میں کامیابی سے مشروط ہیں۔ ترقی کے ہر اگلے موقعے کے لیے ضروری تربیت فراہم کی جاتی ہے۔
سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لیفٹیننٹ بننے میں بالعموم ایک سال کا عرصہ لگتا ہے۔ لیفٹیننٹ سے کیپٹن کے عہدے پر ترقی چار سال سے ساڑھے چار سال کے عرصے میں ہوسکتی ہے،کیپٹن سے میجر کے عہدے تک پہنچنے کے لیے سات سال کا عرصہ درکارہوتا ہے۔ میجر سے اوپر کے عہدوں کے لیے ، گنجائش کے مطابق اہلیت اور صلاحیت کے پیشِ نظر موزوں امیدواروں کو منتخب کرکے ترقی دی جاتی ہے ۔
ذاتی خصوصیات
فوج کے افسروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نظم و ضبط کی پابندی کریں اور خود نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں۔ لیکن افسر کے لیے سب سے اہم خصوصیت قائدانہ صلاحیت ہے، افسریا قائد کا مطلب یہ ہے کہ آپ آزادانہ فیصلے کرسکیں۔ اس کام کے لیے خود اعتمادی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی اپنے ماتحتوں میں بھی اعتماد پیدا کرنا ہوتا ہے۔ تجزیاتی ذہن اور حالات کو سمجھ کر فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت لازمی ہے۔ افسر کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ موصولہ اطلاعات کا فوری تجزیہ کرسکے ۔ اپنے کام میں ماہر ہو اور اپنے خیالات دوسروں تک واضح طور پر پہنچا سکے۔ افسر کو دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور کام کرنے کا عادی ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے ماتحتوں اورجوانوں کے ساتھ رفاقت کا جذبہ پیدا کرسکے ۔
بری فوج میں بہ طور افسر داخل ہونے کا طریقہ
پاکستان کی بری فوج میں افسر کی حیثیت سے شامل ہونے کے لیے کئی مواقع ہیں جن کی تفصیلات وقتاً فوقتاً اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ان مواقع کامختصر تعارف درجِ ذیل ہے
پی ایم اے لانگ کورس
بارہویں جماعت یا اس کے مساوی یا سینئر کیمبرج( پانچ مضامین کامیاب اور ہائی سینئرکیمبرج کے دو مضامین کامیاب) یا اے لیول کامیاب یا اولیول کے لازمی انگریزی کے ساتھ پانچ مضامین کامیاب اوراے لیول کے دو مضامین کامیاب نوجوان پی ایم اے لانگ کورس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ عمرکی حد 17 سے 22 سال اور حاضر سروس مسلح افواج کے افراد کے لیے 23 سال ہے۔ انٹرمیڈیٹ میں کم سے کم ڈی گریڈ (40 فیصد نمبر) ہوناچاہیے۔ انتخاب کے مراحل میں کامیاب ہونے والوں کو پاکستان ملٹری اکادمی کاکول میں دو سال کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔ تربیت کی تکمیل پر انھیں بی اے /بی ایس سی کی سند کے ساتھ فوج میں بہ طور افسر کمیشن دے دیا جاتا ہے ۔
پی ایم اے لانگ کورس میں داخلے کے لیے سال میں دو بار اپریل اوراکتوبر میں درخواستیں طلب کی جاتی ہیں ۔
انتخاب کا طریقہ
پاکستان کی مسلح افواج میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے شہری شامل ہوسکتے ہیں۔ پی ایم اے لانگ کورس کے داخلے کا اعلان کے وقت امیدواروں کو غیر شادی شدہ ہونا چاہیے تاہم مسلح افواج کے حاضر سروس افرادکے لیے یہ پابندی نہیں ہے۔
پی ایم اے لانگ کورس میں داخلے کے اعلان کے بعدامیدوار کو بری فوج کے بھرتی دفاتر (پتے مضمون کے آخر میں دیکھیے ) میں کسی ایک پر اپنی تعلیمی اسناد کے ساتھ حاضر ہونا چاہیے۔ آرمی ریکروٹنگ اینڈ سلیکشن سینٹر پرامیدواروں کا ابتدائی ذہانت کا امتحان اورتحریری امتحان لیا جاتا ہے۔ اب ابتدائی امتحانات اور طبی معائنے میں کامیاب ہونے والے متعلقہ امیدواروں کو درخواست فارم دیا جاتا ہے، جسے پر کرکے دو تین دن کے اندرمتعلقہ سینٹر میں جمع کرانا ہوتا ہے۔ آرمی سلیکشن اینڈ ریکروٹنگ سینٹر سے بھیجی گئی کامیاب امیدواروں کی فہرست جی ایچ کیو میں،امیدواروں کے میٹرک/انٹر کے نشانات( نمبروں) کے ساتھ مرتب کی جاتی ہے اوراہل امیدواروں کوآئی ایس ایس بی میں امتحان اور انٹرویو کے لیے بلایا جاتا ہے۔ آئی ایس ایس بی سے پہلے یا بعد میں امیدواروں کا کسی قریبی ملٹری اسپتال میں تفصیلی طبی معائنہ ہوتاہے۔ آئی ایس ایس بی کے مراکز کوہاٹ ، گوجرانوالہ اور کراچی میں ہیں۔ آئی ایس ایس بی میں حاضر ہونے والے امیدواروں میں سے کامیاب امیدواروں کی فہرست جنرل ہیڈکوارٹر میں مرتب کی جاتی ہے ۔
جو امیدوار جس مرحلے پر ناکام ہوجائے، اس کی اطلاع اسے دے دی جاتی ہے ۔
گریجویٹ /ٹیکنیکل گریجویٹ کورس
بی اے یا بی ایس سی یا اس سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوج میں ڈائریکٹ شارٹ سروس کمیشن حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس میں بھی انتخاب کا طریقہء کا روہی ہے جواوپربیان کیا گیا ہے۔ متعلقہ مضمون میں فرسٹ یا سیکنڈ ڈویژن کامیاب امیدوار درخواست دے سکتے ہیں۔ عمر کی حد 28 سال ہے۔ ایم اے ، ایم ایس سی، درسِ نظامی یا اسلامیات میں ایم اے کے حامل امیدواروں کے لیے عمرکی حد 35 سال ہے۔ مضامین کے لحاظ سے مختلف کوروں میں شمولیت کی تفصیلات درجِ ذیل ہیں :
تعلیمی قابلیت کورس ٹریننگ کی مدت
بی ایس سی انجینئرنگ
-1 الیکٹریکل یا میکینکل الیکٹریکل اور میکینکل کور
-2 الیکٹرانکس سگنل کور ایک سال
-3 سول انجینئرنگ کور ایک سال
ایم بی بی ایس آرمی میڈیکل کور دس ہفتے آرمی میڈیکل کورسینٹر میں
بی ڈی ایس آرمی ڈینٹل کور
ڈی وی ایم ریماؤنٹ اینڈ وٹرنری کور دس ہفتے
ایم اے /ایم ایس سی آرمی ایجوکیشن کور اکیس ہفتے
درس نظامی 228ایم اے اسلامیات (شعبہ دینی تعلیمات) اکیس ہفتے
آرمی میڈیکل کور اور ڈینٹل کور کے علاوہ دیگر کیڈٹوں کو مذکورہ تربیت پی ایم اے میں دی جاتی ہے ۔ تربیت کی تکمیل کے بعد کیڈٹوں کوکیپٹن کے عہدے میں کمیشن ملتا ہے۔ آرمی ایجوکیشن کور یا اس کے شعبہ دینی تعلیمات میں ایم فل یا پی ایچ ڈی کی شکل میں عمرمیں چھوٹ اوررینک میں مزید سنیارٹی یا ترقی کے لیے گزشتہ سروس کو شمار کیا جاسکتا ہے ۔
پی ایم اے میں تربیت کے بعد یہ افسر اپنی اپنی کور کے مخصوص کالجوں میں اپنی کور کے بارے میں بنیادی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پھر سروس کے مختلف مرحلوں میں بھی دوسرے افسروں کے ساتھ ان کی تربیت کا مزید اہتمام کیا جاتا ہے۔
پری میڈیکل گروپ
پری میڈیکل میں ایف ایس سی کرنے والے طلبہ جنھوں نے کم از کم 65 فیصد نمبر حاصل کیے ہوں اورجن کی عمر 17 سال کے درمیان ہو،آرمی میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کرنے کے لیے درخواست دے سکتے ہیں، منتخب ہونے پرانھیں پانچ سال کے لیے آرمی میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کا کورس کروایا جاتا ہے جس کی تکمیل پر وہ دس ہفتوں کے لیے آرمی میڈیکل کورسینٹر جاتے ہیں جہاں انھیں خالص فوجی تربیت دی جاتی ہے۔ تربیت کی تکمیل پر انھیں کپتان کے رینک میں کمیشن ملتا ہے ۔
اس اسکیم کے تحت چند نشستیں خواتین امیدواروں کے لیے بھی مخصوص ہوتی ہیں۔
ٹیکنیکل کیڈٹ اسکیم
ایف ایس سی کرنے والے نوجوان ٹیکنیکل کیڈٹ اسکیم کے ذریعے بھی کمیشن حاصل کرسکتے ہیں ۔ اس اسکیم کے تحت پری انجینئرنگ میں ایف ایس سی کرنے والے جنھوں نے این سی سی سمیت کم ازکم 60 فیصد نمبرلیے ہوں، درخواست دینے کے اہل ہوتے ہیں۔ درخواست فارم آرمی سلیکشن سینٹروں سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ انھیں احتیاط سے بھر کر مندرجہ ذیل پتے پر بھیجنا ہوتا ہے :
جنرل ہیڈ کوارٹرز
پی اے ڈائریکٹوریٹ ( پی اے ۔3 بی )، راول پنڈی
درخواستوں کی جانچ پڑتال کے بعد ایف سی لیول کا فزکس ،کیمسٹری اور حساب میں ایک امتحان لیا جاتا ہے جو پشاور، راولپنڈی ، لاہور ، ملتان، حیدر آباد، کراچی اور کوئٹہ میں منعقد ہوتا ہے۔ کامیاب امیدوار آئی ایس ایس بی کے لیے بلائے جاتے ہیں ۔ یہاں سے کامیاب امیدوار خود کو قریبی فوجی اسپتال میں طبی معائنے کے لیے پیش کرتے ہیں پھرحتمی فہرست تیار ہوتی ہے۔ ناکام امیدواروں کو پی ایم اے کے لانگ کورس کے لیے زیرِ غورلایا جاسکتا ہے۔ کامیاب امیدوار فوج کے مختلف کالجوں میں تعلیم پاتے ہیں جس کی تفصیل یہ ہے :
ملٹری کالج آف انجینئرنگ
یہ ڈگری دینے والا ادارہ ہے۔ بیرونی امتحانات یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈٹیکنالوجی لاہور، انجینئرنگ یونی ورسٹی پشاور اور این ای ڈی یونی ورسٹی کراچی کے زیرِ اہتمام منعقد ہوتے ہیں۔ یہاں کے گریجویٹ اعلیٰ تعلیم کے لیے امپیریل کالج آف لندن، اور امریکا کے ایم آئی ٹی جیسے اداروں کے لیے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہیں ۔
1988ء سے یہاں پاکستان کی تینو ں یونی ورسٹیوں اورمشی گن اسٹیٹ یونی ورسٹی کے الحاق سے ایم ایس سی سول انجینئرنگ کے تین مضامین میں کلاسیں بھی شروع ہیں۔ ٹیکنیکل کیڈٹ اسکیم کے تحت آنے والے کیڈٹ یہاں ڈھائی سال تعلیم حاصل کرکے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کرتے ہیں ۔
ملٹری کالج آف سگنلز
یہ کالج ڈگری کے لیے یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈٹیکنالوجی لاہور سے الحاق شدہ ہے۔ ساڑھے تین سال کی تربیت کے بعد یہاں سے ٹیلی کمیونیکیشن میں بی ایس سی کی ڈگری ملتی ہے۔
کالج آف الیکٹریکل اینڈمیکینکل انجینئرنگ
یہ کالج بھی یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈٹیکنالوجی سے الحاق شدہ ہے ۔ یہاں آنے والے کیڈٹ ساڑھے تین سال کی تربیت کے بعد الیکٹریکل یا میکینکل کے شعبے میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کرتے ہیں ۔
ان تینوں کالجوں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد ان کیڈٹوں کو فوجی تربیت کے لیے پاکستان ملٹری اکیڈمی بھیجا جاتا ہے جہاں ایک سال کی تربیت کے بعدبہ طورکیپٹن انھیں فوج میں کمیشن ملتا ہے ۔ اس اسکیم میں شامل ہونے والے کیڈٹوں کے تمام تعلیمی اخراجات فوج برداشت کرتی ہے۔ انھیں وردی مفت مہیا کی جاتی ہے ، قیام وطعام کی ذمہ داری بھی فوج کی ہوتی ہے۔ تاہم شمولیت کے خواہش مند افراد سے یہ اقرار نامہ لیا جاتا ہے کہ تعلیم کی تکمیل پر وہ کم از کم تیرہ سال فوج میں خدمت کریں گے ۔
پاکستان ملٹری اکادمی ، کاکول
پاکستان ملٹری اکادمی ،کاکول پاک فوج کے لیے منتخب کیے جانے والے افسروں کی تربیت گاہ ہے۔ جو نوجوان انٹر سروسز سلیکشن بورڈ( آئی ایس ایس بی) سے کامیاب ہوتے ہیں انھیں تربیت کے لیے پی ایم اے میں داخل کرلیا جاتا ہے۔ پی ایم اے کے مہ و سال ، زندگی کا ناقابل فراموش تجربہ ہوتے ہیں۔ اس تربیت گاہ میں پاکستان کے کسی شہر یا دیہات سے آنے والے عام سے نوجوان کو ایسی تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ایک ’’فوجی افسر‘‘ بن کر نکلتا ہے۔
پی ایم اے میں ہر روز زندگی کا آغاز صبح سویرے ہوتا ہے۔ طلو ع آفتاب سے قبل جسمانی ورزش کرائی جاتی ہے، دوڑایا جاتا ہے، گھنٹوں جی تھری رائفل سے نشانہ بازی کی مشق کرائی جاتی ہے۔ میلوں پیدل مارچ ہوتا ہے اور متواتر کئی کئی دن اور رات ، جنگی تدابیر، کیمپنگ اور پیٹرولنگ کی مشق کرنی ہوتی ہے۔ یہ نہایت سخت زندگی ہوتی ہے لیکن ناممکن نہیں ہوتی۔ کیڈٹ کی سخت تربیت کے دشوارمرحلے سے گزرنے کے بعد فوجی وردی پہننے والے نوجوان کے کاندھے پرستارے جگمگاتے ہیں جو مستقبل کے بہت سے ستاروں کے پیام بر ہوتے ہیں۔ یہی تربیت ذہن کو بیدار کرتی ہے، صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے اور جسم کو چاق چوبند اور چست بناکر فوجی افسر کا مطلوبہ معیار پیدا کردیتی ہے۔ نوجوانوں میں خود اعتمادی کا ایک نیا احساس بیدار ہوتا ہے، ذمہ داریوں کو قبول کرنے اور ان سے کامیابی سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
پی ایم اے میں تعلیم وتربیت کے دوران کیڈٹ کو معقول وظیفہ دیا جاتا ہے ،اس کی رہائش، کھانا، تعلیم، علاج اور لباس مفت ہوتے ہیں۔
پی ایم اے سے بی اے یا بی ایس سی کرنے کے بعد اگر امیدوار کی خواہش اور صلاحیت ہو تو اسے اندرون ملک اور بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کا موقع بھی حاصل ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ اسکول کے درجے پر بھی چند درس گاہیں ہیں جہاں نو عمر طلبہ کو چھٹی، ساتویں یا آٹھویں جماعت میں داخلہ دیا جاتا ہے اور عام درسی تعلیم کے ساتھ فوجی تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ بری فوج کی درجِ ذیل درس گاہیں ہیں، جہاں کے سند یافتہ نوجوانوں کو پی ایم اے لانگ کورس کے ابتدائی انتخاب و امتحان کے مرحلے سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔
-1 ملٹری کالج ، جہلم -2 آرمی برنس ہال کالج ، ایبٹ آباد -3 ایچی سن کالج ، لاہور -4 لارنس کالج، مری -5 کیڈٹ کالج کوہاٹ -6 کیڈٹ کالج ،پشاور -7 کیڈٹ کالج حسن ابدال -8 کیڈٹ کالج، مستنگ -9 کیڈٹ کالج ،رزمک -10 کیڈٹ کالج ، پٹارو -11 کیڈٹ کالج لاڑکانہ ۔ مزید تفصیلات کے لیے اپنے قریبی آرمی سلیکشن اینڈریکروٹنگ سینٹرآفس سے رابطہ کیجیے۔ ان کے فون نمبر درجِ ذیل ہیں ۔
پشاور 770392 راول پنڈی 56134237
لاہور3792803 ملتان 71350
حیدر آباد 278365 کراچی 7782711
کوئٹہ 7602454