افواج
مسلّح افواج آپ کی منتظر ہیں
بلندحوصلہ اور جواں عزم رکھنے والے نوجوانوں کے لیے فوج ایک پرکشش پیشہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج“ محض پیشہ نہیں ہے بلکہ ایک طرزِزندگی ہے۔ یہ زندگی کا وہ راستہ ہے جو آدمی کو ایک بالکل مختلف سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ فوج کی تربیت ایک خام سے نوجوان کو ایسا کندن بن دیتی ہے جوسوار محمد حسین، میجر محمد طفیل ، پائلٹ آفیسر راشد منہاس، میجر محمداکرم، لانس نائیک محمد محفوظ، میجر شبیر، کیپٹن محمد سرور اور میجر راجا عزیز بھٹی جیسے شہید وطن کے لہو کی طرح عروس وطن کے ماتھے کی افشاں بن کر دمکتی ہے اور مستقبل کے نوجوانوں کو جراءت و شجاعت کی داستانیں سنا کر ان کے شوق کی لے تیز کرتی ہے
جنگ ہویا امن ،فوج ہمیشہ مصروفِ عمل رہتی ہے۔ اس کے کام کی نوعیت، سطح اور افرادی قوت کی گنجائش حکومت کی پالیسی کے مطابق کم یا زیادہ ہوسکتی ہے۔ لیکن ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع، فوج کا بنیادی اوراوّلین فریضہ ہوتا ہے۔ روزگار کی صورت ِحال کی وجہ سے فوج میں آنے کے خواہش مند نوجوانوں کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہورہا ہے کیوںکہ یہاں انھیں صرف محفوظ ملازمت ہی دستیاب نہیں ہے بلکہ بغیر کسی خرچ کے کئی ہنر سیکھنے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بھی میسر آتے ہیں۔ فوج کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے فرد کا بنیادی کام ملک کا دفاع ہے۔ جو لوگ فوج میں آنے کی خواہش رکھتے ہیں،انھیں یاد رکھناچاہیے کہ فوجی زندگی پھولوں کی سیج نہیں ، یہ عزت، عظمت اوروقار عطا کرتی ہے تو جاںفشانی اور محنت بھی مانگتی ہے۔ وقت پڑنے پر اس کے افسر اور جوان چٹان بن کر سرحدوں پر ڈٹ جاتے ہیں اور دشمن کو تہس نہس کردینا ان کا مقصدِ اوّلیں قرار پاتا ہے۔ یہ راستہ کامیابی کا راستہ ہے۔ سرخ روئی تو ہر حال میں مقدر ہے۔ زندہ رہے تو غازی اور شہید ہوجائیں تو ہمیشہ رہنے والوں کی صفوں میں شمولیت ۔
بریہ( آرمی) ،بحریہ( نیوی) اور فضائیہ(ایئرفورس) مسلّح افواج کے تین شعبے ہیں۔ ہر شعبے کا بنیادی کام ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ان تینوں افواج کا ہر شعبہ متعدد ذیلی شعبوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ فوج کو صرف لڑاکا جوانوں اور افسروں ہی کی ضرورت نہیں ہوتی،اسے ڈاکٹر ،انجینئر، اساتذہ اور دیگر متعدد ہنر مندوں اورتکنیکی مہارت رکھنے والے افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے جیسے دفاعی سائنس میں تکنیکی مہارت بڑھتی جارہی ہے، ویسے ویسے تکنیکی صلاحیتیں رکھنے والوں کی طلب و اہمیت میں اضافہ ہورہا ہے ۔
مسلح افواج،ہر طرح کی صلاحیتیں رکھنے والے نوجوانوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتی ہیں۔ بیش تر نوجوان جذبہءحب الوطنی سے سرشار ہوکر وطن کی خدمت کے لیے آتے ہیں، مہم جو نوجوانوں کو خطرات سے کھیلنے کا شوق اس راستے پر لے آتا ہے، سیّاحت کے شوقین ہواﺅں میں اڑنے اور سمندروں میںسفر کی لگن لے کرآتے ہیں اور کچھ لوگ ہوتے ہیں جو سخت کوشی کو ایک چیلنج سمجھ کر یہ راستہ اختیار کرتے ہیں ۔
نظم و ضبط فوج کی زبردست تنظیم کی بنیادی طاقت ہے، جو لوگ فوج میں شامل ہوتے ہیں، انھیں اپنی زندگی کو نظم وضبط کا عادی بنانا پڑتا ہے، نظم و ضبط قبول کرنا ہوتا ہے اور احکامات کی تعمیل کرناہوتی ہے، دوسروں کے ساتھ مل جل کر ایک ٹیم کی صورت کام کرنے اور ہم کارساتھیوں سے مانوس ہونے کی صلاحیت بھی لازمی ہے۔ فوج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ صاف ستھری،خوش لباس اورسلیقہ مند ہو۔ لڑاکا فوج کے افرادکو خصوصاً سخت جان اورمضبوط جسم کا ہوناچاہیے۔ اپنے پیشے کے تقاضوں کوپورا کرنے کے لیے جوش ، ولولہ،جذباتی حوصلہ، اطاعت اور رفاقت کی خصوصیات بھی ضروری ہیں۔
فوج کے افسربالعموم پیشہ ورانہ قابلیت کے حامل ہوتے ہیں اور انھیں انتظامی اور تنظیمی امور انجام دینے ہوتے ہیں۔ انھیں اپنے محدود حلقہء اختیار میں، قائدانہ ذمہ داریاں پوری کرنا ہوتی ہیں۔ فوج کے جوان اپنے افسران کے کردار اور عمل سے تحریک پاتے ہیں۔ مسلح افواج کا پیشہ اختیار کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ملک اور بیرونِ ملک کسی بھی جگہ کسی بھی موسم میں کام کرناہوگا ۔