بلاگ
بارہویں جماعت کے بعد طب کی پیشہ ورانہ تعلیم
بارہویں جماعت کے بچوں کی مزید تعلیم کا سوال، والدین کے لیے ایک پریشان کن مسئلہ ہوتا ہے۔ زندگی کا جو ڈھب بنا ہوا ہے، اس میں وقت کم ہوتا ہے اور مطلوبہ معلومات دستیاب نہیں ہوتیں۔ ان مشکلات کی وجہ سے اکثر والدین اور بارہویں جماعت کا امتحان دینے والے طلبہ و طالبات پاکستان میں دستیاب تعلیمی سہولتوں کے بارے میں بروقت واقفیت حاصل نہیں کرپاتے اور مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ معلومات کے اس فقدان کی وجہ سے کبھی کبھی بعض طلبہ کا ایک سال ضائع بھی ہوجاتا ہے۔اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے زیادہ فکر مند والدین، اس مسئلے کے حل کے لیے بہ طور خاص چھٹی لے کر معلومات حاصل کرتے ہیں اور اپنے بچوں کی آگے کی تعلیم کے لیے کوئی بندوبست کرتے ہیں۔ اس میں خاصاوقتاور رقم خرچ ہوجاتی ہے۔
ہماری درس گاہوں میں (خواہ وہ پاکستان میں ہوں یا پاکستان سے باہر) کیریئر گائیڈنیس نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ و طالبات کو یہ علم ہی نہیں ہوپاتا کہ تعلیم اور تعلیم کے بعد عملی زندگی،کتنی رنگا رنگ اور کتنی ہمہ جہت ہے۔ ستر، اسّی فی صد طلبہ اور ان کے والدین کے ذہنوں میں، پیشہ ورانہ تعلیم کے حوالے سے صرف ’’ڈاکٹر‘‘ یا ’’انجینئر‘‘ کا تصور ہوتا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ 70 فیصد لوگ ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکتے۔ نہ ہی دنیا کو اتنی بڑی تعدادمیں ڈاکٹروں اور انجینئروں کی ضرورت ہے۔
بہتر تو یہ ہے کے بچے کی مستقبل کی تعلیم و تربیت اور اس کے لیے موزوں، ممکنہ پیشے کے بارے میں، بچے کے فطری میلان اور صلاحیتوں کے پیشِ نظر، ساتویں، آٹھویں جماعت ہی سے فکر شروع کر دی جائے۔ لیکن اس اہم مسئلے پر نہ والدین غور و فکر کرتے ہیں اور نہ ہی اسکولوں میں اساتذہ توجہ دیتے ہیں۔ اس بے پرواہی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد ایسے شعبوں میں تعلیم حاصل کرلیتے ہیں، جن میں ان کی دلچسپی نہیں ہوتی اور تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ متعلقہ پیشے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ چند کامیاب رہتے ہیں، اکثرناکام زندگی گزارتے ہیں۔
اس رویے کی وجہ سے قومی سطح پر دو طرح کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ ان ہزاروں افراد میں کسی خاص پیشے یا ہنر کی جو فطری صلاحیت تھی ،وہ استعمال ہی نہیں ہوپاتی اور دوسرے یہ کہ ان افراد نے جن جگہوں پر کام کیا وہاں ایسے افراد کو کام کرنے کا موقع ہی نہیں مل پاتا جو اس کام کے لیے اپنے فطری رجحان کی وجہ سے، زیادہ بہتر کام کرسکتے تھے اور قومی ترقی میں اضافے کا سبب بن سکتے تھے۔ اس طرح ترقی و کامیابی کے بہت سے امکانات ناپید ہوجاتے ہیں۔
ذاتی زندگی میں افراد کی شخصیت، ان کے سماجی رویوں اور خاندانی زندگی پر جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان میں کارکردگی میں کمی، احساسِ کمتری، غیر ضروری طور پر کام کا دباؤ اور اس کے نتیجے میں مزاج میں جھنجھلاہٹ اور چڑ چڑاپن عام علامات ہیں۔ ان کے علاوہ بعض نفسیاتی الجھنیں بھی لاحق ہوجاتی ہیں اور ایک اچھا بھلا انسان جو موزوں پیشہ اختیار کرکے کامیاب زندگی گزار سکتا تھا،ناکام افراد کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے۔
بات ذرا طویل ہوگئی، لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ والدین اور خود طلبہ و طالبات کو اپنے شوق، فطری صلاحیتوں اور میلانِ طبع اور عملی زندگی میں پیشے کے انتخاب کی اہمیت کا احساس ہوجائے اور وہ آئندہ اپنے بچوں کے مستقبل کی منصوبہ بندی کا کام صحیح وقت پر شروع کرنے کا عزم کرلیں۔
بارہویں جماعت کے بعد پاکستان میں جن شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کی سہولتیں موجود ہیں، ان میں طب (میڈیکل) اور انجینئری (انجینئرنگ) کے مقبول شعبوں کے علاوہ ، سائنس، تجارت (کامرس) اور فنون (آرٹس) کے سینکڑوں شعبے ہیں جہاں آپ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ اس مضمون میں طب کے شعبے میں دستیاب سہولتوں کا تعارف کرایا گیا ہے۔
پاکستان میں طب کی تعلیم کی سہولتیں
پری میڈیکل میں بارہویں جماعت کامیاب کرنے والوں کے لیے کسی میڈیکل کالج میں پانچ سالہ نصاب کی تکمیل کے بعد ڈاکٹر بننے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ براہِ راست ڈاکٹر بننے کے لیے، پاکستان میں دو شعبے ہیں، جن میں تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے:
1۔ ایم بی بی ایس (بیچلر آف میڈیسن اینڈ بیچلر آف سرجری)
2۔ بی ڈی ایس (بیچلر آف ڈینٹل سرجری)
پاکستان کے درجِ ذیل کالجوں میں ایم بی بی ایس کے نصاب کی تعلیم دی جاتی ہے:
ڈاؤ میڈیکل کالج، کراچی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ،لاہور
سندھ میڈیکل کالج،کراچی علامہ اقبال میڈیکل کالج، لاہور
آغاخان یونی ورسٹی، میڈیکل کالج، کراچی راول پنڈی میڈیکل کالج، راولپنڈی
بقائی میڈیکل کالج، کراچی آرمی میڈیکل کالج، راولپنڈی
لیاقت میڈیکل کالج ، جام شورو(سندھ) فاطمہ جناح میڈیکل کالج، لاہور
چانڈکا میڈیکل کالج، لاڑکانہ خیبر میڈیکل کالج، پشاور
نواب شاہ میڈیکل کالج، نواب شاہ ایوب میڈیکل کالج، ایبٹ آباد
نشتر میڈیکل کالج،ملتان بولان میڈیکل کالج، کوئٹہ
قائد اعظم میڈیکل کالج، بہاول پور کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، کراچی
پنجاب میڈیکل کالج ، فیصل آباد بقائی میڈیکل یونی ورسٹی
ضیاء الدین میڈیکل یونی ورسٹی
درجِ ذیل کالجوں میں بی ڈی ایس کی سند کے لیے چار سالہ نصاب کی تعلیم دی جاتی ہے:
1۔ نشتر میڈیکل کالج، ملتان
2۔کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور
3۔لیاقت میڈیکل کالج، جام شورو
4۔ ڈی مونٹ مورینسی کالج آف ڈینٹسٹری، لاہور
5۔کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، کراچی
طب کی تعلیم میں زیادہ دلچسپی کی وجہ سے ہر سال میڈیکل کالجوں میں داخلے کے وقت خاصا ہجوم رہتا ہے۔ اکثرنشستیں مقابلے کی بنیاد پر، پرکی جاتی ہیں، اس لیے میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم کے دوران خوب محنت کی ہو اور امتحان میں بہت اچھے نشانات (مارکس ) حاصل کیے ہوں۔
سرکاری میڈیکل کالجوں میں تعلیمی اخراجات معقول ہیں۔ بیش تر کالجوں میں دارالاقامہ (ہاسٹل) کی سہولت ہے۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں تعلیمی اخراجات کا اندازہ ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے سالانہ ہے۔
اس وقت ملک میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد تقریباً 67 ہزار ہے۔ ہر سال اوسطاً ساڑھے تین ہزار میڈیکل گریجویٹ فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ملک میں آبادی کے لحاظ سے ڈاکٹروں کی قلّت ہے۔
فارغ التحصیل ہونے اور ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹروں کے لیے ملازمت کے درجِ ذیل مواقع ملتے ہیں:
161وفاقی اورصوبائی حکومتوں اوربلدیاتی اداروں کے اسپتالوں اورطب سے متعلق
محکموں/اداروں میں ملازمت یہاں ابتدائی تنخواہ تقریباً 6 ہزار روپے ماہانہ ہوتی ہے۔
161نجی اسپتال اور کلینکس۔ ابتدائی تنخواہ 3 سے 4 ہزار روپے ماہانہ۔
161دوا ساز کمپنیاں۔۔۔ابتدائی تنخواہ 7 سے 8 ہزار روپے ماہانہ۔
161عرب اور افریقی ممالک میں ملازمت۔ ابتدائی تنخواہ35 سے 40 ہزار روپے ماہانہ ۔
طب کے پیشے کے لیے امیدوار میں ان صلاحیتوں کا ہونا مفید ثابت ہوتا ہے۔
161سخت محنت اور بعض اوقات ذاتی آرام کو قربان کرنے کا جذبہ۔
161بدترین حالات میں دوسروں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنے کی صلاحیت۔
161توجہ اور تحمل کے ساتھ دوسرے کی بات سننا۔
161اپنے پیشے سے متعلق جدید علوم اور نئی معلومات حاصل کرنے کے لیے مستقل مطالعہ کی عادت
161ہنگامی حالات میں گھبراہٹ کا شکار نہ ہونے اور پرسکون رہنے کی صلاحیت۔
اگر میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ملے تو۔۔۔؟
پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بسنے والے پاکستانی طلبہ و طالبات ہر سال ہزاروں کی تعداد میں پری میڈیکل میں بارہویں جماعت کا امتحان کامیاب کرتے ہیں۔ میڈیکل کالجوں میں نشستوں کی تعداد محدود ہوتی ہے اس لیے ’’ڈاکٹر‘‘ بننے کے خواہش مند ہر امیدوار کو اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوتی۔
لیکن میڈیکل کالج میں داخلہ۔۔۔طب کے پیشے کی انتہانہیں ہے۔ اگر آپ کو واقعی طب کے پیشے سے دلچسپی ہے اور آپ حقیقتاً انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں تو طب کے شعبے میں دیگر کئی پیشے آپ کے منتظر ہیں۔
علم الادویّات (فارمیسی)
علم الادویّات (فارمیسی) طبی علوم کی ایک اطلاقی شاخ ہے۔ ’’دوا کی تیاری اور مریض تک دوا پہنچانے کے عمل کو علم الادویّات کہتے ہیں‘‘۔
پری میڈیکل میں بارہویں جماعت کے کامیاب طلبہ و طالبات بی فارمیسی (بیچلر آف فارمیسی) میں داخلہ لینے کے اہل ہوتے ہیں۔ پہلے اس کا نصاب تین سال میں مکمل ہوجاتا تھا لیکن 1982ء سے یہ چار سالہ نصاب ہوگیا ہے۔ پاکستان کی درجِ ذیل درس گاہوں میں بی فارمیسی کی تعلیم دی جاتی ہے:
کلیہ علم الادویّات، جامعہ پنجاب ، لاہور شعبہ علم الادویّات، جامعہ بہاؤ الدین ذکریا، ملتان
کلیہ علم الادویّات، جامعہ کراچی شعبہ علم الادویّات، جامعہ پشاور
شعبہ علم الادویّات، جامعہ سندھ ،جام شورو شعبہ علم الادویّات، جامعہ بلوچستان، کوئٹہ
شعبہ علم الادویّات، جامعہ گومل، ڈیرہ اسماعیل خان
علم الادویّات میں داخلے کے خواہش مند امیدوار بھی تعداد کے لحاظ سے زیادہ ہوتے ہیں جب کہ نشستیں محدود ہوتی ہیں۔ چناں چہ امیدواروں کاانتخاب مقابلے کی بنا پر کیا جاتا ہے۔
علم الادویّات کے چار سالہ نصاب کی تکمیل کے بعد ، بی فارمیسی کی سندحاصل کرکے آپ کمیونٹی فارمیسی، ہاسپٹل فارمیسی یا انڈسٹریل اینڈ ریسرچ فارمیسی کے شعبوں میں کام کرسکتے ہیں۔ کمیونٹی فارمیسی کا شعبہ ہمارے یہاں ابھی زیادہ منظم نہیں ہے۔ ادویّات کی دکانوں میں کام کرنے والے دوا ساز کو کمیونٹی فارماسسٹ کہتے ہیں۔ چھوٹے، بڑے سرکاری و نجی شفا خانوں میں دوا سازی، دواؤں کی تیاری اور انھیں اندرونی و بیرونی مریضوں تک پہنچانے کے قانونی، پیشہ ورانہ اور انتظامی امور، ہاسپٹل فارما سسٹ انجام دیتے ہیں۔ انڈسٹریل اینڈ ریسرچ فارماسسٹ، دوائیں بنانے والے کارخانوں میں تحقیق و ترقی (ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ)، معیار کی ضمانت (کوالٹی کنٹرول)، تیاری (پروڈکشن) اور بازار کاری (مارکیٹنگ) کےشعبوں میں کام کرتے ہیں۔
پاکستان میں ہرسال اوسطاً چھ سو امیدوار بی فارمیسی کی سندحاصل کرتے ہیں۔ ملک میں اس وقت تقریباً ڈھائی ہزار رجسٹرڈ فارماسسٹ ہیں۔ بی فارمیسی کی سندحاصل کرکے آپ ملازمت بھی کرسکتے ہیں اور ادویّات کی دکان قائم کرکے کمیونٹی فارماسسٹ کے طور پر، اپنا کاروبار بھی شروع کرسکتے ہیں۔ اگر اس شعبے میں مزید تعلیم (ماسٹرز ان فارمیسی ، پی ایچ ڈی اِن فارمیسی) حاصل کرنا چاہیں تو اس کے مواقع بھی (اندرونِ ملک وبیرونِ ملک) دستیاب ہیں۔
ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس اور بی فارمیسی کے علاوہ طب کے شعبے میں پیشہ ورانہ تعلیم کے درجِ ذیل مواقع بھی موجود ہیں :
1۔ہومیو پیتھی معالج
2۔طب یونانی کا معالج (طبیب/حکیم)
ہومیوپیتھی معالج کا نصاب چار سال کا ہے۔ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ہومیوپیتھی کی تعلیم کے لیے درس گاہیں موجود ہیں۔ان کی فہرست اور مزید معلومات کے لیے درجِ ذیل پتے پر خط لکھا جاسکتا ہے:
نیشنل کونسل فارہومیوپیتھی
اے/سی۔08، 1۔ سیٹلائٹ ٹاؤن، راول پنڈی۔
طبِ یونانی یا حکمت کا نصاب بھی چار سال کا ہے۔ پاکستان کے اہم شہروں میں طبی کالج قائم ہیں۔ مزید معلومات کے لیے اس پتے پر رابطہ کیا جاسکتا ہے:
ہمدرد طبیہ کالج، مدینتہ الحکمت کراچی
طب سے متعلق دیگر شعبے بھی ہیں، جہاں پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت حاصل کرکے ترقی اور کامیابی کے مواقع سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے کیوں کہ ان میں سے ہر شعبے میں تربیت یافتہ اور باقاعدہ تعلیم یافتہ افراد کی شدید قلت ہے۔ ان شعبوں کی فہرست درجِ ذیل ہے:
1۔نرسنگ 9۔ای سی جی ٹیکنیشن
2۔آپریشن تھیٹر ٹیکنیشن 10۔آپتھیمالوجی ٹیکنیشن
3۔لیبارٹری ٹیکنیشن 11۔ڈینٹل سرجری اسسٹنٹ
4۔ریڈیو گرافر 12۔ہاسپٹل ڈائی ٹیشین
5۔بلڈ بینک ٹیکنیشن 13۔ایکس رے ٹیکنیشن
6۔پیڈیا ٹرک لیبارٹری ٹیکنیشن 14۔فیزیو تھراپی ٹیکنیشن
-7 ڈینٹل ٹیکنیشن 15۔مڈوائفری
-8۔ڈینٹل ہائی جینسٹ 16۔لیڈی ہیلتھ وزیٹر
ان تمام شعبوں میں تعلیم و تربیت اور ملازمت کے مواقع پاکستان میں بھی ہیں اور پاکستان سے باہر بھی۔ اوپر دی گئی فہرست میں بعض سرٹیفکیٹ کورسز ہیں اور بعض میں ڈپلوما کورسز ہوتے ہیں جو آگے چل کر ڈگری کورس(مثلاً نرسنگ) بن جاتے ہیں۔
ان کورسز کے بارے میں مزید معلومات کے لیے درجِ ذیل اداروں سے رابطہ کیا جاسکتا ہے:
1۔ڈائریکٹر، پیرا میڈیکل انسٹیٹیوٹ 2۔ سیکریٹری، پاکستان نرسنگ کونسل
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز نیشنل ہیڈ کوارٹرز، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ
اسلام آباد